Umma, Bari Uz Zimma
امہ،بری الذمہ
جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی اشتعال انگیزی، جارحیت اور بربریت بدستور جاری ہے 11 روز تک جاری رہنے والی اس خونریز جنگ میں اسرائیل نے 4 ہزار راکٹ فائر کر کے عورتوں اور بچوں سمیت 240 معصوم فلسطینوں کو شہید 2 ہزار سے زائد زخمی ہسپتال، میڈیا سنٹر سمیت 20 ہزار گھروں کو تباہ اور پورے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے باوجود اسرائیل کی پیاس نہیں بجھی وہ آج بھی معصوم فلسطینوں کے خون کا پیاسا ہے سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل اس وقت تک معصوم فلسطینوں کا خون نوچتا رہے گا جب تک امہ اپنے کردار سے بری الزمہ رہے گی جب تک مسلم حکمران مزمتوں اور قراردادوں تک محدود رہیں گے۔
یہ سوچ کر حیرت سے بڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ تیل اور قدرتی وسائل سے مالا مال 57 اسلامی ممالک، دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ان کے حکمران، دو ارب کے قریب آبادی، 80 لاکھ کے قریب فوج، اسلامی ممالک کا 40 ملکی فوجی اتحاد جس کا بظاہر مقصد امت مسلمہ کا مشترکہ دفاع بتایا گیا تھا، تمام مسلم ممالک کا مشترکہ پلیٹ فارم او آئی سی، عرب لیگ اور دوسری طرف دنیا بھر میں مسلمانوں کی قسمت میں ذلت و رسوائی، دنیا کے ہر خطے میں مسلمانوں کی تضحیک اور تذلیل، اور خدا کی یہ زمین خدا کے بندوں کے لیے تنگ، اپنے گھروں میں بے گھر اپنے وطنوں میں بے وطن، کہیں وہ آزادی کی خاطر جبر کا سامنا کر رہے ہیں کہیں حقوق کے تحفظ کے لیے ظلم کا شکار ہیں، کہیں انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں کہیں سانس لینے کی قیمت چکا رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے مسلمانوں کو مظلوم دیکھا ہے یا مجبور، کیڑوں مکوڑوں کی طرح کچلتے دیکھا ہے یا گاجر مولی کی طرح کٹتے، آج حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان دہشت گردی کا شکار بھی ہیں اور دہشت گرد بھی قرار دئے جاتے ہیں نسلی تعصب کا شکار بھی ہیں اور متعصب بھی قرار دئے جاتے ہیں مگر سمجھ نہیں آتی امہ کہاں ہے کہیں ہے بھی یا نہیں حق حکمرانی جتلانے والے 57 حکمران تو موجود ہیں مگر کردار حکمرانی ادا کرنے والا ایک بھی نہیں جن کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ امریکہ کی لونڈی سے بڑھ کر نہیں جو ہمیشہ امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو امریکہ چاہتا ہے اقوام متحدہ میں وہی ہوتا ہے جس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے دوران پہلے تو امریکہ کی روکاٹوں کی وجہ سے تین بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس مؤخر ہوا اور پھر اگر اجلاس ہوا بھی تو بغیر کسی مشترکہ اعلامیے کے ختم ہوگیا ہاں اگر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری بھی ہوجاتا تو کیا ہوتا کوئی قرارداد پاس بھی ہوجاتی تو کیا ہوتا گزشتہ کئی دہائیوں سے سینکڑوں قراردادوں کو اسرائیل جوتے کی نوک پر رکھ چکا ہے اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے کیونکہ امریکہ جو بظاہر امن کا سب سے بڑا دعویدار ہے درحقیقت وہی سب سے بڑھ کر امن کا دشمن ہے خاص طور پر امریکہ کبھی نہیں چاہتا کہ مسلمان سکھ کا سانس لے سکیں اس کے لیے وہ ہمیشہ بھارت اور اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط برقرار رکھ سکے سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا ملک امریکہ ہے اس لیے یہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ اسلحے کی دوکان چلانے والا ملک جنگ کا بازار بند کر دے۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم اقوام متحدہ سے ہی امید کیوں رکھتے ہیں اور ہم امریکہ کی طرف ہی کیوں دیکھتے ہیں آخر مسلم ممالک کو کیا کردار ادا کرنا تھا اور وہ کیا کردار ادا کر رہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین مسلم حکمرانوں کا کردار کبھی بھی قابل تحسین نہیں رہا وہ اپنے اندر اتنی اخلاقی جرات اور اتحاد پیدا نہیں کرسکے کہ اقوام عالم کو ان دیرینہ مسائل کے حل کے لیے مجبور کر سکیں مگر یہ کسی کو کیا مجبور کریں گے یہ تو خود مجبور دکھائی دیتے ہیں اپنے تعلقات اور اپنے مفادات بچانے کے لیے وہ انسانیت کو قربان کر رہے ہیں کشمیر کو علاقائی اور پاکستان بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر اکثر مسلم ممالک نے کبھی بھی دو ٹوک اور واضح مؤقف نہیں اپنایا یہی وجہ ہے بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیروں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں یہی صورتحال مسلہ فلسطین کی ہے وہ عرب ممالک جن کا اس مسلے سے براہ راست تعلق ہے اور جنہیں اس کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا تھا وہ ایک ایک کر کے اسرائیل کے ناجائز ووجود کو تسلیم کر رہے ہیں بلکہ کچھ عرصے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تمام مسّلم ممالک میں بحث شروع ہوچکی ہے جس کا واضح مقصد وہاں کے عوام کی ذہن سازی ہے مگر فلسطینوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطینوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے جس کا واضح مقصد اسرائیل کی تمام جارحیت کو قبول کر کے اس کے مؤقف کو حق بجانب قرار دینا ہے۔
مسّلم حکمرانوں کو مسلمانیت کے ناطے نہ سہی انسانیت کے ناطے ہی سوچ لینا چاہئے کہ جو کشمیری اور فلسطینی ہمیشہ مسّلم امہ کی راہ تکتے ہیں اور مسلمان حکمرانوں سے امید رکھتے کہ وہ ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف مضبوط چٹان بن کر کھڑے ہونگے وہ اگر اسی طرح ریت کی دیوار بن کر زمین بوس ہوتے رہے تو پھر انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل کے خطرناک عزائم کی زد میں کبھی وہ خود بھی آسکتے ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ ذہنی غلامی قبول کر چکنے والے اپنے آقاؤں کا سامنا کیسے کریں گے کیونکہ جب عادت ہوجاتی ہے تو حیرت نہیں رہتی اور غیرت تو بالکل بھی نہیں رہتی۔