Pandora Papers, Kuch Hoga Bhi Ya Nahi?
پنڈورا پیپرز، کچھ ہوگا بھی یا نہیں؟
پانامہ لیکس، وکی لیکس اور دبئی لیکس کے بعد حالیہ دنوں میں آنے والے عالمی مالیاتی سیکنڈل پنڈورا پیپرز میں پی ٹی آئی وزراء، حکومتی اتحادیوں، اپوزیشن اراکین، ریٹائرڈ آرمی آفیسران، مختلف میڈیا ہاوسز اور مختلف کاروباری شخصیات سمیت 700 پاکستانیوں کے نام آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔ جس کے بعد ہر پاکستانی کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ پنڈورا پیپرز کا نیا پنڈورا بکس کھلنے کے بعد کیا کچھ ہوگا بھی یا نہیں؟ کیونکہ ماضی میں آنے والے پانامہ لیکس سیکنڈل میں آنے والے 400 لوگوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی آج تک معلوم نہیں ہو سکا جبکہ سابق وزیر اعظم کی کہانی تو پانامہ سے شروع ہوئی مگر انہیں سزا اقامہ پر ہوئی اور انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا مگر دیگر لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد بھی ہر طرف خاموشی چھائی رہی اور اب پنڈورا پیپرز میں 700 لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کرپشن لوٹ مار اور منی لانڈرنگ میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے یا ماضی کی طرح چند دنوں کی لفظی جنگ کے بعد سیز فائر ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وزیر اعظم نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی دولت پر ہاتھ صاف کیا ویسے ہی ترقی پذیر ممالک کی حکمران اشرافیہ بھی یہی کر رہی ہے۔ بد قسمتی سے امیر ممالک کو بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن اور لوٹ مار سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی وہ لوٹی ہوئی دولت ترقی پذیر ممالک کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں " دوسری طرف حکومتی پارٹی اور ترجمانوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پنڈورا لیکس میں شامل افراد خود اپنے آپ کو کلیئر کریں۔ کلیئرڈ کمپنیوں اور ٹیکس دہندگان کو کلیئر قرار دیا جائے گا جبکہ پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمائندوں کے کیسز نیب کو بھیجے جائیں گے۔ اس حوالے سے ایک تحقیقاتی سیل بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی سربراہی وزیر اعظم خود کریں گے جبکہ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر اس سیل کی معاونت کریں گے۔ تحقیقاتی سیل کمپنیوں کے قانونی یا غیر قانونی ہونے، منی لانڈرنگ اور ٹیکسز کے معاملات کی تحقیقات کرے گا اور پنڈورا پیپرز میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا"۔
وزیر اعظم کی طرف سے تحقیقاتی سیل قائم کرنا خوش آئند ضرور ہے مگر یہ ناکافی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف غیر جانبدارانہ، شفاف اور کڑے احتساب کے ایک مضبوط بیانیے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی وزیر اعظم کی انتخابی مہم انکے وعدوں، دعوؤں، بیانات اور منشور کو دیکھ لیں منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں ان کے پہلے خطاب سے لیکر اب تک کی ہر تقریر کو سامنے رکھیں تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ وہ احتساب کے نظام کو مضبوط کریں گے، لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، چوروں اور لٹیروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ وہ احتساب کے لیے سب سے پہلے خود کو پیش کریں گے اس کے بعد ان کی کابینہ اور پھر دوسروں کا احتساب ہوگا۔
ایسے میں جب پنڈورا لیکس میں انکی کابینہ میں شامل وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے خاندان کی 4، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کی ایک، پی ٹی آئی کے رہنما فیصل ووڈا کی ایک، صوبائی وزیر علیم خان کی ایک اور ان کے اتحادی مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی کے بیٹے مونس الہی کی دو آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں تو ایسی صورتحال میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ اپنی کابینہ اراکین سے فوری طور پر استعفیٰ لیں گے۔ کیونکہ ماضی میں عمران خان کا یہی موقف رہا ہے کہ جن لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں انہیں فوری طور پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دینا چاہئے کیونکہ اس طرح وہ تحقیقات پر اثر انداز ہونگے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے ان کا یہی مطالبہ تھا اور اس حوالے سے انھوں نے احتجاج بھی کیا یہاں تک کہ انہیں استعفے پر مجبور کیا۔ لیکن اب ان کی کابینہ اراکین اور اتحادیوں کے نام سامنے آنے کے بعد نہ تو انھوں نے استعفے مانگا ہے اور نہ ہی کسی کسی میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں۔ احتساب کا یہ دوہرا معیار پاکستان تحریک انصاف کے غیر جانبدارانہ احتساب کے دعوؤں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بد قسمتی سے اس ملک میں کرپشن جتنی طاقتور ہے احتساب اتنا ہی کمزور ہے یہ ہمیشہ مخالفین کے گرد گھومتا ہے ماضی میں بھی یہی ہوتا رہا اور آج بھی یہی ہورہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک پچھلے کئی سالوں سے مالی بحران کا شکار ہے معیشت ڈاواں ڈول ہے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے بھوک غربت اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے معاشی حالات عدم استحکام کا شکار ہیں یہاں تک کہ بیرونی قرضے اتارنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے پاکستان کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے آئی ایم کی شرائط پر بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ اور پوری قوم مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے ایسے میں ہماری اشرافیہ حکمران، سیاستدان، ریٹائرڈ فوجی جرنیل، بزنس مین آف شور کمپنیوں کے زریعے بیرون ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور پاکستان سے دولت باہر منتقل کر رہے ہیں جو کہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ ہے سوال تو یہ ہے کہ اس ملک نے انہیں کیا نہیں دیا مگر انھوں نے ملک کو کیا دیا؟
ایسی صورتحال میں پنڈورا پیپرز کے ذریعے سامنے آنے والی طاقتور اشرافیہ کے خلاف کارروائی کے حوالے سے عوام کے خدشات درست ہیں کیونکہ ہمارے ہاں جس کیس کو لٹکانا ہو اس کے لیے کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور جس کو دفن کرنا ہو اس کے لیے کمیشن بنا دیا جاتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ احتساب کے بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف آنے والے دنوں میں کرپشن کو دفن کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر اپنے احتساب کے دعوؤں کو ہی دفن کر ڈالتی ہے۔