Khooni Sarkain Aur Rauf Klasra Ki Mithai
خونیں سڑکیں اور رؤف کلاسرا کی مٹھائی
لاہور، گوجرانوالہ سیالکوٹ یا اپر پنجاب کے کسی شہر سے واپسی پر لیہ، ڈیرہ غازیخان راجن پور یا جنوبی پنجاب کے کسی شہر کے لیے لوکل بس پر سفر کرنے کا تجربہ ہے تو ایک بات ضرور آپ کے علم میں ہوگی کہ ان بسوں پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مزدور طبقے سے ہوتا ہے جو گروپ لیبر کی صورت میں اپر پنجاب کے بڑے شہروں میں جا کر ملوں، فیکٹریوں اور دیگر مقامات پر مزدوریاں اور دیہاڑیاں کرتے ہیں۔ وسیب جنوبی پنجاب کے لوگ اپر پنجاب میں جا کر محنت مزدوریاں کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ یہ بات سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں یقیناً وسیب جنوبی پنجاب میں روزگار کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وسیب زادوں کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی کراچی سے وسیب کے مزدوروں کی لاشیں آتی ہیں اور کبھی بلوچستان میں انہیں بے موت مار دیا جاتا ہے۔
عید سے ایک روز قبل سیالکوٹ سے راجن پور آنے والی بس ڈیرہ غازیخان کے قریب انڈس ہائی وے پر حادثے کا شکار ہوگئی جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد سمیت 40 سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات میں محنت مزدوری کرنے والے یہ لوگ عید کی چھٹیاں منانے اپنے گھروں کو آرہے تھے مگر اس المناک حادثے نے عید کی خوشیوں کو ماتم میں تبدیل کر دیا اور پچاس کے قریب گھرانوں میں قیامت برپا ہوگئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سڑکوں پر حادثات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں گاڑیاں جب سڑکوں پر چلتی ہیں تو ٹریفک قوانین کی خلاف، تیز رفتاری، اوورلوڈنگ یا معمولی سی غلطیاں بڑے حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق روڈ سیفٹی کے حوالے سے پاکستان کا شمار بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ جہاں حادثے کا شکار افراد کی اکثریت موقع پر ہی جاں بحق ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ 6 سے 7 ہزار افراد حادثات کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن اگر یہ حادثات ریاست، ریاستی اداروں اور حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہوں تو انتہائی افسوسناک ہوتا ہے۔
انڈس ہائی وے کراچی سے پشاور تک تین صوبوں کو آپس میں ملاتی ہے۔ جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے اور متبادل اور مختصر راستہ اختیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ جنوبی پنجاب سے گزرنے والی اس شاہراہ پر بھاری بھرکم ٹریفک کا بے انتہاء دباؤ ہوتا ہے مگر ون وے نہ ہونے کی وجہ سے معمول سے بڑھ کر حادثات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے مقامی طور پر خونیں روڈ کہا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ سال چھوٹے بڑے 2 ہزار سے زائد حادثات ہوئے جن میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے یہی وجہ ہے ایک طویل عرصے سے انڈس ہائی وے کو ون وے کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سال 2019ء میں موجودہ حکومت کے دو وزراء ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والی زرتاج گل اور وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے الگ الگ اس بات کی خوشخبری دی تھی کہ ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے ڈیرہ اسماعیل خان سے ڈیرہ غازیخان سیکشن 329 کلومیٹر سڑک کو دو رویہ کرنے کی منظوری ہوگئی ہے جس کا جدید ڈیزائن تیار ہوچکا ہے جلد کام کا آغاز ہوجائے گا۔ مگر دو سال گزرنے کے باوجود یہ خوشخبری اعلان سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ایم ایم روڈ کی ہے انڈس ہائی وے کی طرح اسے بھی خونیں روڈ کہا جاتا ہے ملتان، مظفر گڑھ اور میانوالی روڈ کراچی سے پشاور تک، تین صوبوں کو ملانے والی اس سڑک پر بھی ٹریفک کا بے پناہ رش ہوتا ہے مگر سڑک سنگل اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں ہر سال سینکڑوں لوگ حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ عوام کے دیرینہ مطالبے اور بھر پور مہم کی وجہ سے امید کی جارہی تھی کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی دورہ لیہ کے موقع پر ایم ایم روڈ کو ون وے کرنے کا اعلان کریں گے مگر یہ امید بھی نقش برآب ثابت ہوئی۔ نہیں معلوم حکمرانوں کو کیا پرخاش ہے کہ ٹریفک حادثات میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرنے والے وسیب کے لوگوں کا ذرا بھی احساس نہیں کیا جاتا۔
پچھلے دنوں لیہ سے تعلق رکھنے والے ملک کے معروف صحافی رؤف کلاسرہ نے وزیر اعظم سے ہونے والی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ " میں نے ایم ایم روڈ پر رولا ڈالا ہوا تھا تو وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں وزیر اعظم کی میڈیا کو دی گئی بریفنگ کے بعد مجھے ہاتھ سے پکڑ کر جناب عثمان بزدار نے کہا رؤف صاحب مبارک ہو ایم ایم روڈ منظور ہوگئی ہے بس کچھ دنوں کی بات ہے آپ مٹھائی تیار رکھیں۔ کاشف عباسی ساتھ کھڑے تھے انھوں نے قہقہ لگایا اور بولے رؤف صاحب مبارک ہو۔ اس قہقہے کے پیچھے وہ ملاقات تھی جو ہم صحافیوں نے وزیر اعظم سے عہدہ سنبھالنے کے ایک ماہ بعد کی تھی۔ اس ملاقات میں میں نے ایم ایم روڈ کی حالت زار پر تفصیل سے بات کی اور اسے ون وے کرنے کا مطالبہ کیا تو وزیر اعظم نے قدرے ناراضگی سے مجھے کہا یہ میرا کام نہیں ہے نہ میرے پاس فنڈ ہیں یہ کہ کر وہ اٹھ کر چل دئے۔
پھر کئی ماہ گزر گئے تو میں نے دوبارہ ایم ایم روڈ کا رولا ڈالا تو ایک روز وزیر مواصلات مراد سعید کا مجھے فون آیا کہ اب ہم نے وہ سڑک پنجاب حکومت سے لیکر این ایچ اے کو دے دی ہے۔ مطلب پنجاب حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی یہ حال تھا عثمان بزدار کا جو مجھ سے مٹھائی مانگ رہے تھے۔
اب سوچ رہا ہوں کہ عثمان بزدار کو کہیں سے تلاش کروں اور انہیں مٹھائی کا ڈبہ پیش کروں جو انھوں نے ایم ایم روڈ کی تعمیر کی منظوری کی خوشی میں مجھ سے مانگا تھا جو آج تک نہیں بن سکی اب تو عثمان بزدار کے اپنے گھر کی سڑک انڈس ہائی وے کئی خاندان اجڑ گئے ہیں "
یقیناً یہ ایک انتہائی افسوسناک پہلو ہے کسی بھی حکمران نے کبھی بھی وسیب کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا پچھلے چند سالوں میں ملک میں ایک نہیں کئی کئی موٹرویز بن گئیں، میٹرو بن گئی اورنج ٹرین بن گئی، رنگ روڈز بن گئیں اچھی بات ہے مگر وسیب کے سینکڑوں خاندانوں کی زندگیاں تباہ اور ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بننے والے خونیں سڑکوں انڈس ہائی وے اور ایم ایم روڈ کو ون وے کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ آج تو وزیر اعظم اور وزیر اعلی دونوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے مگر وہ بھی وسیب سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ نہیں معلوم رؤف کلاسرہ عثمان بزدار کو تلاش کر کے مٹھائی کا ڈبہ دے سکتے ہیں یا نہیں مگر زیادہ دیر نہیں تھوڑا عرصہ باقی ہے یہ عثمان بزدار اور پی ٹی آئی حکمران عوام کو خود تلاش کر رہے ہونگے مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔