Darindon Ka Raj Insaniyat Taraaj
درندوں کا راج انسانیت تاراج
آج تیسرا دن ہے میرا ذہن مسلسل سیالکوٹ کی اس فیکٹری کے گرد گھوم رہا ہے جہاں انسانیت تاراج ہوئی جہاں انسان نما درندوں نے رزق کی تلاش میں آئے ایک پردیسی کو موت کا رزق بنا دیا۔ موت لفظ لکھنا تو شاید آسان ہو مگر اسے کے دکھ اور درد کو سمجھنا خاصا مشکل ہے اور پھر موت بھی ایسی کہ جس سے موت بھی شرما جائے۔ فیکٹری منیجر سری لنکن شہری پریانتھا کمارا جس پر ماتحت ورکرز نے توہین مذہب کا الزام لگایا اور پھر بغیر کسی تاخیر کے سزا بھی دے دی نہتے معصوم انسان کو آہنی راڈوں، سریوں، ڈنڈوں مکوں اور جس کے ہاتھ جو لگا سب نے تشدد کے "کار خیر " میں حصہ لے کر خوب ثواب کمایا اس کی ہڈیاں چکنا چور کی گئیں برہنہ کر کے سڑک پر گھسیٹا گیا اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی اس کے باوجود ثواب کچھ کم اور جنت کچھ دور نظر آئی تو اس کی لاش کو آگ لگا کر لبیک لبیک کے نعرے لگائے بالکل اسی طرح جیسے جنگل کے دور کا انسان شکار کو آگ میں ڈال کر اس کے گرد رقص کرتا تھا جھومتا تھا اکیسویں صدی کے یہ درندے سیلفیاں بناتے رہے۔
ظلم، جبر، بربریت، وحشت، حیوانیت، درندگی سب لفظ چھوٹے نظر آتے ہیں مگر ان درندوں کی سفاکیت کہیں بڑی، سمجھ نہیں آتی کیا لکھوں۔ میرا 9 سال کا بیٹا شایان بار بار مجھ سے سوال کر رہا تھا بابا اس انکل کا قصور کیا تھا اور کیا اتنے سارے لوگوں میں کسی کو بھی اس پر رحم نہیں آیا مگر میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ ہم بحثیت قوم، قوم نہیں بحثیت ہجوم عدم برداشت، تشدد، جہالت، وحشت اور درندگی کے اس مقام پر جا پہنچے جہاں رحم، احساس، ہمدردی اور انسانیت جیسے لفظوں اور جذبوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں جنت چاہئے ہم اپنے گھر کو جہنم بنا کر جنت میں گھر لینا چاہتے ہیں چاہے اس کے لیے کسی معصوم کے خون میں تیر کر جانا پڑے یا کسی معصوم کی جھلستی ہوئی لاش کو پھلانگ کر جانا پڑے۔
وحشت درندگی اور آگ و خون کا گھناؤنا کھیل کوئی نیا نہیں اور نہ ہی توہین مذہب کا الزام لگا کر کسی معصوم کو اپنی جنونیت کی بھینٹ چڑھانا کوئی نئی بات ہے ہماری تاریخ کے ہر باب پر لگی شدت پسندی اور انتہاء پسندی کی کالک اب آگ اور خون کے نتیجے میں ایک نیا روپ دھار چکی ہے اور ہم خوف کے سائے میں اپنی زبانوں پر چپ کے جندرے لگا کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کو بدنام اور استعمال کرنے والے جنونی ہر روز ایک نیا روپ دھار کر سامنے آرہے ہیں کبھی یہ بقایا جات مانگنے والے کوٹ رادھا کشن کے مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کا الزام لگا کر اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا دیتے ہیں، کبھی گوجرہ کی عیسائی بستی اور لاہور کی جوزف کالونی میں زمین ہتھیانے کے لیے توہین مذہب کا الزام لگا کر سینکڑوں گھروں کو نظر آتش کرکے راکھ کا ڈھیر بنا دیتے ہیں، کبھی یہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر، کبھی ولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان، کبھی بہاولپور کے استاد اور کبھی خوشاب جوہر آباد کے بینک منیجر پر ذاتی عناد کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور آج سری لنکن شہری پریانتا کمارا ان جنونیوں کے ثواب کی بھینٹ چڑھ گیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اتنا مذہب پر عمل نہیں ہوتا جتنا مذہب کا استعمال ہوتا ہے لوگوں کے جذبات بھڑکا کر اپنے مفادات کا کھیل کھیلا جاتا ہے دکھ تو اس بات کا ہے کہ مذہب کو بدنام کرنے والے جنونی اس نبی مکرم آقا حضور ﷺ کا نام استعمال کر رہے ہیں جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے جنہوں نے پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیں اور ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کو بھی معاف کر دیا جن کی تعلیمات کے ہر ہر پہلو میں احساس انسانیت نظر آتی ہیں یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جنگ کے بھی اصول متعین کرتے ہوئے عورتوں، بچوں، بزرگوں اور جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کے خلاف تلوار اٹھانے سے منع فرمایا اور پھر ہرے بھرے درختوں کو بھی کاٹنے سے منع فرمایا مگر یہ لوگ جو عشق رسول ﷺ کا دعویٰ کرتے ہیں کبھی یہ لوگوں کے راستے مسدود کرتے ہیں کبھی محافظوں کو قتل کرتے ہیں کبھی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہیں خود ہی عدالت لگاتے ہیں اور خود ہی سزا دے دیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے ریاست کمزور اور بے بس ہوچکی ہے جو بھی جتھا اور گروہ اٹھتا ہے ڈنڈے اور طاقت کے زور پر حکومت کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آخر کب تک ایسے گروہ حکومت اور ریاست کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منواتے رہیں گے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ آج ریاست کی مقتدر اور بااثر قوتوں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو دو ٹوک بیانیے پر اتفاق پیدا کرنا ہوگا اگر آج ان درندوں کے آگے بند نہ باندھا گیا تو کل میں اور آپ بھی ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
یہ بات تو واضح ہے کہ چند جنونی لوگوں کے علاوہ پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ ماورائے عدالت قتل کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں ایسی صورتحال میں سب سے پہلے ایسے تمام عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے جو توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کرنے والے درندوں پر پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں گل پاشیاں کرتے ہیں اور ان کے استقبال کرتے ہیں یہی تو وہ سوچ ہے جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں مگر اب قوم مزید ایسے عناصر کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جس کا اظہار سانحہ سیالکوٹ کے بعد قوم کے ردعمل میں بھی دیکھنے کو ملا یہی وجہ وہ شدت پسند تنظیمیں بھی اس کی مزمت کرنے پر مجبور ہوئیں جن کی لگائی ہوئی آگ میں ہم جھلس رہے ہیں مگر صرف مزمت کر دینا کافی نہیں ریاست کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے اپنی اگلی نسلوں ایک پر امن، متعدل، روشن خیال، احساس انسانیت، احترام انسانیت اور اسلام کے حقیقی تشخص سے روشناس ملک دینا ہے یا اگلی نسلوں کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے اگر آج یہ فیصلہ نہ کیا گیا تو سیالکوٹ کے چوراہے پر جلنے والی آگ کل ملک کے ہر چوک چوراہے جلتی نظر آئے مگر اس میں جلنے والی لاش پریانتھا کمارا کی نہیں میری اور آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔