Youm e Asatiza
یوم اساتذہ
5 اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، بلاشبہ زندگی میں اساتذہ کے بغیر انسان کی فکری تشکیل نامکمل رہتی ہے۔ مگر بے حد افسوس سے یہ ضرور کہونگا کہ اپنے اسکول لائف میں جہاں کچھ اچھے اساتذہ ملے وہیں کچھ ایسے اساتذہ بھی تھے جن کی وجہ سے مجھے تعلیم اور اسکول سے نفرت ہو گئی تھی۔
پرائمری اسکولنگ ہم نے پرائیویٹ اسکول سے کی تھی، پھر کچھ مالی تنگی کی وجہ سے والدین نے مجھے گورنمنٹ اسکول میں بھیج دیا تھا، وہاں ساتویں جماعت میں ہمارے کلاس ٹیچر "چشتی صاحب" تھے، ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے، جو صبح حاضری Attendance کے وقت گزرے کل غیر حاضر رہنے والوں سے ایک روپیہ ذاتی مد میں وصول کرتے تھے۔
کچھ لڑکوں نے تو ان کے لئے دو یا تین روپے چھٹی کے لئے رکھے ہوئے تھے، وہ بہت خوشی سے پیسے لے کر دوسرے لڑکوں بشمول میرے ہمیں مجبور کرتے کہ جو بچے پیسے دے رہے ہیں ان کی غیر حاضری میں ان کا ہوم ورک کر کے دیا جائے۔ بعد ازاں ہم نے جب میٹرک کر لیا تو آخری عمر میں وہ تبلیغی ہو گئے انہوں نے پیسے لینے تو چھوڑ دئیے مگر کلاس روم میں پڑھانے کے بجائے ہر وقت تلاوت کرتے رہتے تھے۔
انٹر اسکول کی جانب سے صوبے بھر میں کھیلوں کی جانب سے میں نے مسلسل ساتویں اور آٹھویں جماعت میں ایتھلیٹکس کے لئے ہائی جمپ، لونگ جمپ اور سو میٹر کی دوڑ میں اول و دوئم پوزیشن لیں، تیس سے پینتیس لڑکوں میں سے واحد اسکول کا لڑکا تھا جو یہ انعامات لایا تھا، بورڈ کی جانب سے کھیلوں کے سرٹیفیکیٹ ملتے ہیں، اتفاق ایسا ہے کہ پہلے یہ سرٹیفیکیٹ manual بھیجے جاتے تھے، اور اسکول کے حوالے کر دیا جاتا تھا وہی اس کو لکھ کر طالب علم کو دیتے تھے، میٹرک کے بعد میں نے چشتی صاحب سے اپنا اسپورٹس سرٹیفیکیٹ مانگا تو انہوں نے ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے وہ سرٹیفیکیٹ اپنے بیٹے کے نام سے فل کر کے انہیں دے دیا تھا۔
آٹھویں جماعت میں خاکسار نے اسکول میں ٹاپ کیا تھا، نویں جماعت کے ابتدائی دن تھے کہ میں شدید بیمار ہو گیا، سترہ دن کی غیر حاضری کے بعد باقاعدہ Medical leave کے ساتھ کلاس میں پہنچا تو حاضری کے وقت نویں جماعت کے کلاس ٹیچر انگریزی پڑھاتے تھے "نقوی صاحب" نے مجھے ڈیسک سے باہر بلایا، ان کو پوری وضاحت کے ساتھ میڈیکل پروف دیا، مگر انہوں نے پوری کلاس کے سامنے مجھے ڈنڈوں سے مارا، اگلے دن میں والد کو لے کر گیا، تب اس کے بعد پورا سال میں ان کے عتاب کا شکار رہا تھا، یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اسکول سے نفرت ہو گئی تھی۔ اور اس برس میرا تعلیمی گراف گر گیا۔
پی سی سی ایچ ایس بلاک نمبر 2 کی معروف مسجد الفلاح کے معروف بزرگ مولوی عبدالحق کے صاحبزادے مولانا ضیاء الحق صاحب جو نیشنل کالج میں بھی استاد تھے اور ہمارے اسکول میں بھی استاد تھے، الفلاح مسجد کے امام مسجد بھی ہیں، علمی طور پر بڑے آدمی مانے جاتے ہیں، طویل قامت، گورا رنگ، لکھنوی لہجہ، منہ میں ہر وقت گلوری ہوتی تھی جس میں کوئی بہت اعلیٰ قسم کا تمباکو استعمال کرتے تھے۔
بہت نفیس قسم کی خوشبو استعمال کرتے تھے، اور اجلے کپڑے پہنتے تھے، وہ ہمارے عربی کے ٹیچر تھے، وہ کلاس میں داخل ہوتے ہی اپنے پسندیدہ لفظوں سے ہمیں مخاطب کرتے تھے، جیسے ابے چمار، ابے چمپو، ابے گھامڑ، ابے منہ سے کچھ نہیں پھوٹ ریا کیا منہ کا بواسیر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہر وقت ان کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تھا، کلاس روم میں آتے ہی یک دم کہتے عربی کے ان لفظوں کا مطلب بتاؤ، دو بچے جب ناکام ہو جاتے تو کہتے بس بھئی سب ہاتھ اوپر کر کے اپنی اپنی ڈیسک پر کھڑے ہو جاؤ، وقت کم ہے جلدی جلدی چار چار ڈنڈے رسید کر کے چلے جاتے۔
میں نے ایک بار وہ ڈنڈے کھائے اگلے دن میں نے گھر سے سارے lesson بلکہ اس سے اگلے تین lesson کے تمام عربی کے معنی یاد کر کے پہنچ گیا، ضیاء الحق حسب معمول کلاس میں وارد ہوئے، میں اگلی سیٹ پر ہی بیٹھتا تھا، انہوں نے میرے برابر والے سے عربی معنی پوچھنے شروع کئے، دو چار لفظوں بعد اس نے ہار مان لی، ضیاء الحق صاحب نے اسے ڈنڈے سے دھویا، اور میری طرف آ کر ڈنڈا چلانے ہی لگے تھے کہ میں نے کہا، سر مجھے یاد ہے۔
انہوں نے غصے سے مجھے دیکھا، ابے گھامڑ کیوں وقت ضائع کر رہا ہے جلدی ہاتھ آگے کر تاکہ باقیوں کا وقت ضائع نہ ہو، میں نے ڈنڈے کھانے کے لئے ہاتھ آگے نہیں کیا، تو انہوں نے کہا، ابے اگر ٹائم ضائع ہوا تو آج تجھے ڈبل ماروں گا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کیا، میں نے ہر ہر جواب دیا، آدھا گھنٹہ گزر گیا، جہاں تک اسباق پڑھایا جا چکا تھا۔
سب کے معنی پوچھے میں نے سب کے جواب دئیے، پوری کلاس پر سکتہ طاری رہا اور ضیاء الحق صاحب کا غصہ بڑھتا رہا، انہوں نے اب ان اسباق کا بھی پوچھنا شروع کر دیا جو ابھی تک پڑھائے نہیں تھے، میں نے ان کا بھی جواب دیا، اتنے میں پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی، ضیاء الحق صاحب نے مجھے غصے سے دیکھا اور کہا اب کل تمہاری پھر باری ہے تم نے آج پوری کلاس کو بچا لیا۔
خیر واقعات تو بے شمار ہیں، لیکن چند اچھے اساتذہ بھی تھے، ہماری ایک حیدرآبادی مس آصفہ خاتون، میتھ کے ایک نو عمر استاد حمید صاحب، اردو کے ٹیچر زبیر صاحب، علیم صاحب انگریزی کے ایک ٹیچر، فزکس اور کیمسٹری کے اسلم صاحب، بہرحال مارنے کے کلچر میں یہ بھی قریب قریب ایسے ہی تھے، مگر پڑھانے میں شائد انہوں نے انصاف سے ضرور کام لیا تھا۔ میٹرک کے بعد بھی میں ان احباب سے ملنے جاتا رہا تھا۔
پتہ نہیں آج کل کیسے اساتذہ ہوتے ہونگے؟ مگر Teacher day پر ایک خیال آتا ہے، کچھ لوگوں کو استاد بننے سے پہلے انسان بننے کی ضرورت ہے۔