Trump Ki Nayi Taleemi Policy
ٹرمپ کی نئی تعلیمی پالیسی

ٹرمپ کی حالیہ غیر ملکیوں کے لیے پالیسی امریکہ کو موجودہ دنیا میں باصلاحیت افراد کے لیے مقناطیس کی حیثیت سے دستبردار کرنے جیسی لگ رہی ہے، چین کے ساتھ امریکہ کی شدید سرد جنگ کا عروج اور اس کا اپنے ان افراد کی صلاحیتوں کے استعمال کرنے سے انکار بالکل ہی حیران کن ہے۔ یہ کتنے مزے کی بات اور حیران کن ہے کہ امریکہ میں پی ایچ ڈی ہولڈرز میں سے 50 فیصد صرف غیر ملکی ہیں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی اسٹینڈرڈ میں جن میں سلیکون ویلی اور گوگل جیسی بڑی کارپوریشنز ہیں جنہوں نے امریکا کی تعلیم کی پوری دنیا میں پہچان منوائی ہوئی ہے، وہاں پر بڑی حد تک ان کی مرکزی ذمے داریاں غیر ملکی پناہ گزیں یا گرین کارڈ ہولڈرز کے کاندھوں پر ٹکی ہوئی ہے۔
اس وقت امریکی یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلباء کی موجودہ تعداد میں سے، 10 لاکھ سے زیادہ، نصف سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (STEM) میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ وہ شعبے ہیں جن کے لیے سمارٹ پروجیکٹ کے ساتھ ہر ملک مقابلہ کرتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں ان طلباء کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اصلا دیکھا جائے تو یہ ایک ایسے ملک کے لیے خوشی کا باعث ہونا چاہیے تھا، جو اپنی صنعتی و معاشی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی حکمت عملی اس کے بالکل مقابل حالات ظاہر کررہی ہے۔
ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ غیرممالک کے طلباء کے داخلوں کو ایک تہائی سے کم کرکے 15 فیصد تک کر دے۔ امید یہی ہے ک اس سے امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد خود بخود کم ہو جائے گی، امریکہ سے سینکڑوں غیرملکی طلباء کو بھی ملک بدر کر دیا گیا ہے اور 222 یونیورسٹیوں کے 1500 سے زیادہ ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ کچھ طلباء کو قانونی خلاف ورزیوں یا سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے اور کچھ طلباء کو یہ معلوم نہیں ہے کہ انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے سے کیوں روکا گیا، اس میں طلباء کے ویزوں پر عائد پابندیاں اور نئی ویزا درخواستوں کو ساقط کر دیا گیا۔
خصوصا وسطی ایشیا اور مشرق وسطی سے بہت سارے لوگ جو امریکہ کی ان اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک میں داخلہ لینے کا خواب دیکھتے تھے، اب ان کے امریکہ داخلے میں کمی آجائے گی۔ امریکہ میں اکیڈمک ریسرچ فنڈنگ، جو کبھی وہاں یا دنیا بھر میں علم کے متلاشیوں کے لیے ایک بڑی ترغیب تھی، اس میں بھی بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ وہاں پر غیر ملکی طلبہ کا استقبال بھی ناراضگی اور ویزوں کی عجیکشن کی صورت ہورہا ہے، ہمارا پڑوسی ہندوستان کے شہید غصے میں ہے جہاں سے امریکہ میں سب سے زیادہ یونیورسٹیوں میں طلبہ داخلہ لینے کے لیے آتے ہیں۔
وہ اپنے بچوں کی واپسی پر ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ بد سلوکی گرفتاریاں اور نظربندی بھی دیکھ رہے ہیں، مزے کی بات ہے کہ چین میں بھی اس حوالے سے امریکہ کے خلاف مظاہرے بڑھے ہیں، کیونکہ چائنا کے طلبہ پر تو بعض اوقات جاسوسی کا الزام بھی لگتا ہے اور ان کے طلباء کو بغیر کسی جواز کے ملک بدری یا مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ سمجھنے کی بات ہے کہ صرف ان دو ایشیا ہی ممالک ہندوستان اور چین پوری دنیا سے نس ملین سے زیادہ طلباء امریکہ بھیجتے ہیں۔
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی طلباء حالیہ مہینوں میں بیرون ملک تعلیمی مواقع کے لیے اسٹڈی پورٹل پلیٹ فارم کو بھی تیزی سے سرچ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے غیر ممالک کے طلباء کا امریکہ جا کر پڑھنے کے رحجان میں کمی آرہی ہے، اس کی جگہ اب برطانیہ کے رہا ہے۔ یہ برطانیہ کو بہت سے لوگوں کے لیے ایک ممکنہ متبادل منزل بناتا ہے، بشمول خود امریکی طلباء کے لئے۔ یہ وہاں کے تعلیمی اداروں کے لیے سنہری موقع ہے، جنہوں نے اس سال مالی امداد کی کمی کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
یعنی اب صرف دولت مند غیرملکی طلباء کی جیبوں سے یہ کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ مزید حالیہ قریب دنوں میں یورپی ممالک کے تعلیمی اداروں نے بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے پروفیسرز کو راغب کرنے کے لیے لاکھوں یورو کا ایک خصوصی پروگرام مختص کیا ہے اور وہ غیرملکی طلباء کے استقبال کے لیے بھی تیار ہیں، ان ممالک میں اسٹڈی ویزہ درخواستیں پہلے سے ہی قبول کی جا رہی ہیں، (خاص طور پر سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں)۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جاپان، چین اور ہانگ کانگ خود کو اس وقت امریکہ کی علمی شان کے لائق وارث سمجھتے ہیں۔ جاپان کی سب سے نمایاں یونیورسٹیوں میں سے ایک، اوساکا یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت امریکی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء اور محققین کو فیس سے مستثنیٰ قرار دیں گے، انہیں اسکالرشپ فراہم کریں گے، حتی کہ اگر وہ وہاں جانا چاہیں تو تعلیمی اخراجات کے علاوہ سفر کے طریقہ کار میں بھی سہولت فراہم کی جائے گی۔ جاپان اپنی اقتصادی و معاشی مشکلات کے باوجود دسیوں یا بیسیوں ہزار نئے آنے والے قابل بین الاقوامی طلباء کا استقبال کرنے اور ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
اس مقصد کو ٹارگٹ کرنے کے لیے، کیوٹو اور ٹوکیو کی جاپانی یونیورسٹیاں اوساکا کے شروع کردہ منصوبے سے ملتے جلتے منصوبے کا اعلان کرنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ ہانگ کانگ کے وزیر تعلیم کرسٹین چوئی نے بھی اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کے لئے ہارورڈ کے بین الاقوامی طلباء، کو جو وہاں پر اشرافیہ کی کریم ہیں انہیں مائل کرنے کے لئے سہولیات اور مدد کے وعدوں کے ساتھ خوش آمدید کہا ہے۔
اب غیرملکی طلباء کے لئے امریکہ کے مقابل ہر طرف سے پیشکشیں آ رہی ہیں، جہاں دنیا کی نئی سائنسی تحقیقاتی ادارے بنانے کی کوششیں اور غیرملکی بہترین اذہان کو مائل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، امریکہ کی ایک انٹرنیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن ایک ریسرچ کے اعشارئہے ہیں کہ بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں کمی سے معاشی منفی اثرات ہیں، صرف امریکہ میں پچھلے سال ان غیر ملکی طلباء نے تقریباً 43 بلین ڈالر خرچ کیے اور 378 ملازمتیں پیدا کیں۔
ٹرمپ جو ایپل کمپنی کی فیکٹریوں کو امریکہ منتقل کرنا چاہتا تھا، ایپل کے سی ای او "ٹم کلک" میں اس سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کی کمپنی کی فیکٹریوں کو امریکہ منتقل کرنا مطلوبہ انسانی وسائل کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ ایک جاپانی امریکی ماہر طبیعیات Michio Kaku، (آنے والے دنوں میں اس کی مستقبل کے حالات کے لئے کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ہیں) کا غیرملکی طلباء کے لئے کہنا ہے کہ
"غیر ملکییوں کی ذہانت کے بغیر، سلیکن ویلی کو بھول جاؤ اور گوگل کو بھی بھول جاؤ۔ "
امریکی غیر ملکی اذہان کی مسابقت جو محدود کرنے کا سوچ رہے ہیں، حالانکہ ان کا یہ کرنا ان کے اپنی تعلیمی و تحقیقاتی اداروں کو امریکہ کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے کافی ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والے سالوں میں واضح ہو جائے گا۔ مگر ہمارے لئے بھی سوال ہے کہ ہمارے طلباء و بہترین اذہان نے امریکہ کے بجائے اب اپنا رخ کن ممالک کی طرف کرنا ہے یا کہیں بہت دور یہ سوچ بھی زندہ ہوسکتی ہے کہ ہم خود اس دوڑ میں کیوں نہ شامل ہوں؟

