Saleem Akhtar Qabil e Fakhar Pakistani
سلیم اختر قابل فخر پاکستانی
پردیس کا پندرہواں برس ہے، اکثر میں نے یہاں پاکستانیوں کے خراب رویوں پر بات کی ہے، ایسا کم ہی ہوا کہ کچھ تعریفی پوسٹ بھی کی ہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگ پردیس میں بھی بہترین انسان، بہترین پرفیشنلزم کے ساتھ اور اپنے کام کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں جہاں کام کرتے ہیں وہاں بطور پاکستانی ایسا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ وہاں زمانوں تک وہ کمپنیاں انہیں ایک بہترین و ایماندار انسان کے طور پر تو یاد رکھتی ہی رکھتی ہیں لیکن چونکہ پردیس ہوتا ہے تو ان کے نام کے ساتھ ایک اور لفظ ہمیشہ تعریفی کلمات کے ساتھ جڑتا ہے وہ لفظ ہے کہ وہ شخص "پاکستانی" ہے۔
برس پہلے جب میں پاکستان سے آیا تو میں آج جہاں جاب کر رہا ہوں یہی نوکری سب سے پہلی اور آج تک کی جانے والی تاحال نوکری ہے، ہماری فیلڈ میں مختلف کام ہیں، کیمیکل ٹینکرز میں بیچنا، کیمیکل ڈرم میں بیچنا، امپورٹ، خلیجی ممالک کی حد تک ایکسپورٹ، کیمیکل ٹرانسپورٹ وغیرہ وغیرہ، کیمیکل کے لیے jerry cans اور ڈرم کے لئے ہم نے ہمیشہ مسائل کا سامنا کیا، اس قدر کے پہلے تین برس ہمارے اکثر آرڈرز کی ناکامی کا سبب یہی ڈرم و کین کی کوالٹی رہتی۔
پھر اتفاق سے میں نے ایک پاکستانی کیمیکل کمپنی کے ریفرنس سے ایک ڈرم بنانے والی کمپنی میں ایک پاکستانی کا نمبر لیا اور میں نے فون کیا، آرڈر پروسیڈ کیا، بہترین میٹریل دیا گیا، ہم مطمئین ہوگئے، اکثر پی او پروسیس میں ہوتا ہے، میں انہیں فون پر کہتا کہ یہ آرڈر آ رہا ہے آپ مینج کر لیں، وہ مینج کر دیتے، ہماری پیمنٹ میں تاخیر ہو جاتی اس کے بعد انہیں سے ایک فون کرنا ہوتا تھا اور یہ آرڈر ریلیز کروا دیتے، ان کرو تو بہت محبت سے سلام دعا کرتے ہیں خیریت پوچھتے معاملات کی خیر خبر لیتے، ہمیشہ بہت اچھے تعلق سے بات کرتے۔
پھر ایک بار ایسا ہوا کہ ان کی پوری شپمنٹ جو انہوں نے ہمیں ڈلیور کی، اس میں شکایت یہ آئی کہ ڈرم کے نیلے رنگ نے رنگ چھوڑا اور اس میں موجود کیمیکل کا رنگ بدل گیا، ہمارے کچھ آرڈرز واپس ہوئے، یہ معاملہ اس سے پہلے بھی کئی ڈرم بنانے والی کمپنیز کے ساتھ ہم بھگت چکے تھے، کبھی شنوائی نہیں ہوئی تھی کسی نے کبھی نہیں مانا، میں نے فورا کال کی، تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ بذریعہ ایمیل اپنی شکایت بھیجیں۔ مجھے لگا کہ یہ بھی عمومی سعودی عرب کی کمپنیوں کی طرح ای میلز پر ایک لمبے چوڑے مکالمے کے بعد معاملہ کسی جانب نہیں جائے گا بہرحال میں نے بذریعہ ای میل انہیں شکایت بھیجی جس میں میں نے سٹیٹمنٹ کی آدھی کوانٹٹی جو استعمال ہوئی تھی اس کا رپلیسمنٹ دعوی کیا اور مزید کسٹمرز کے پاس بھیجے جانے والے آرڈرز کی لاجسٹک کلیم کی۔
دس دن بعد ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب ان کی کمپنی کی طرف سے بغیر انوایس ہمیں دو شپمنٹ کا مال بطور جرمانہ انہوں نے بھجوایا۔ سعودی عرب میں یہ ایک ناقابل یقین عمل تھا کہ اتنی جلدی کوئی آپ کی شکایت کو سنے آپ کے کلیم کردہ دعوے سے بھی زیادہ دگنا آپ کو ڈیمج ادا کرے۔ دس برس سے زائد ہماری کمپنی کا بزنس ان کی کمپنی سے چل رہا ہے تاحال ہمیں کبھی شکایت نہیں ہوئی اور کوئی شکایت بھی ہوئی تو فوری ازالہ کیا گیا۔
یہ سب کرنے والے سلیم اختر ہیں، عرصہ چالیس برس سعودی عرب میں ایک بڑی کمپنی (جو پلاسٹک کیمیکل jerry can اور ڈرم بناتی ہے) سے بطور مینجرل، اس کمپنی کو سعودی عرب کی پہلی پلاسٹک ڈرم بنانے والے کمپنی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سلیم اختر صاحب اس کمپنی کو بنانے والوں میں اور آج یہ کمپنی اس جگہ پر موجود ہے جو سعودی عرب کی بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیز میں گنی جاتی، دو برس پہلے یہ اپنی ملازمت ختم کرکے جاچکے تھے، مگر اپنی محنت و کمپنی کا ایک مقام بنانے کی وجہ سے اس کمپنی میں بطور پاکستانی ایک خوبصورت و ممتاز تعارف رکھتے ہیں۔
یہ آج کل اپنے بیٹے سے ملنے آئے ہوئے ہیں تو ہماری ملاقات کل لنچ ہر ہوئی۔ سلیم اختر صاحب نے اس کمپنی کو اپنی زندگی کے چالیس برس دئیے، چالیس برس پہلے یہ کمپنی ایسی پہچان نہیں رکھتی تھی، ان کی کمپنی میں لفظ پاکستانی ایک باعزت لفظ ہے، کیونکہ ان کی ایمانداری کام کے ساتھ مخلص ہونا کمپنی کی ترقی میں ایک مقام بنانے نے انہیں بطور پاکستانی وہاں پر لفظ پاکستان کو ایک عزت بخشی ہے۔ پردیس میں پاکستانیوں کا نام اکثر برے تاثر سے سمجھا جاتا ہے، نفر سلیم اختر جیسے پاکستانی ہیں جو پردیس میں پاکستانیوں کا تاثر بہترین بناتے ہیں۔