Ramzan Ki Aamad Marhaba
رمضان کی آمد مرحبا
اسی ہفتے میں نے صرف چند عمومی چیزیں خریدی ہیں، میں اکثر روٹین میں ہفتہ وار آفرز میں سے چیزیں لیتا ہوں، گروسری میں ہی کرتا ہوں، جو فوری ضرورت کی نہ بھی ہوں تب بھی خرید لیتا ہوں، جیسے یہ سامان ہے، شیمپو اور ہینڈ سوپ، پانی کی بوتلوں کے کریٹ وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ بالمجموع 187 ریال کی اشیاء ہیں، ان تمام پروڈکٹس کی یہ اسٹینڈرڈ قیمتیں ہیں، جو کمپنی کی جانب سے طے شدہ ہوتی ہیں۔ یعنی یہ عام بقالے (جنرل اسٹور) پر شائد اس سے بھی ایک یا دو ریال زائد ہی فی پروڈکٹ ملیں گی، ان پروڈکٹ پر عمومی آفرز ہفتہ وار بھی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بعد از آفر 107 ریال کا بل لیا گیا ہے۔ خود اندازہ لگا لیں کہ آفرز کسے کہتے ہیں۔
یعنی اس میں ڈیٹول کا ہینڈ سوپ 400 گرام جس کی اصل قیمت 35 ریال ہے وہ صرف 10 ریال میں ملا ہے، اسی طرح تقریبا ہر پروڈکٹ کی قیمت میں فرق ہے۔ یعنی بالمجموع دیکھا جائے تو یہ 75 فیصد سے زائد کی رعایت موجود ہے۔ کچھ خصوصی آفرز رمضان آمد کی وجہ سے ہے، مزید یہ کہ گھریلو باورچی خانے کے مصارف کی اشیاء جیسے دودھ چینی کھانے کا تیل آٹا اور چاول پر بھی رمضان میں بہترین آفرز میسر ہوتی ہیں۔ کیونکہ رمضان کو سعودی عرب میں بہترین ثقافتی مظہر کے طور پر منایا جاتا ہے۔
میں نے چند دن پہلے کراچی کے معروف امتیاز سپر مارکیٹ والے کا ایک انٹرویو دیکھا تھا کہانیاں تو اس نے وہی موٹیویشنل سپیکرز والی سنائی تھیں، لیکن سچ یہ ہے کہ امتیاز سپر مارکیٹ میں 80 فیصد ایسی پروڈکٹ جن کے استعمال کا ایک مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ اس پر کبھی بھی اشیاء کی تاریخ انتہا (Expiry dates) قیمت نہیں لکھی ہوتی، اگر لکھی بھی ہو تو اس کے اوپر ایک اور سٹیکر لگا دیا جاتا ہے یعنی وہ اشیاء اصولی طور پر قابل استعمال نہیں رہتی لیکن پھر بھی ان پر سٹیکرکے زریعے اس کی معیادی مدت بڑھا دی جاتی ہے۔ یہ امتیاز سپر مارکیٹ والوں کا خاص طرہ امتیاز ہے، میرا خیال ہے اس حوالے سے کئی لوگوں نے بھی سوشل میڈیا پر شکوہ کیا ہے۔
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ چونکہ امتیاز جنرل سٹور کے مالک نے مذہبی ٹچ اور اصلاحی مواظ کے ذریعے اپنی موٹیویشنل کہانی سنائی تو اس انٹرویو کو بہت زیادہ تشہیر بھی ملی اور کئی معروف لوگ بڑی خوشی سے اس کو اپنی پوسٹ بنا رہے تھے، کراچی میں گلشن اقبال والے امتیاز سپر مارکیٹ میں جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ انہوں نے غیر قانونی طور پر بنایا ہے ایسی کسی بھی مارکیٹ کے لیے ایک بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ اس میں ایک پارکنگ ایریا ضرور رکھا جاتا ہے۔ اس سٹور کے بننے کے بعد سے لے کر آج تک اس سگنل پر ہمیشہ ٹریفک جام رہتا ہے اور لوگوں کو ٹریفک کے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مجال ہے کہ اس بارے میں کبھی کسی نے کوئی بات کی ہو۔
اور بقول امتیاز سپر مارکیٹ کے مالک کے کہ وہ یہ آئیڈیا سنگاپور اور دوسرے ملکوں سے لے کر آئے اور انہوں نے کہا کہ انہیں بھی اس ملک میں ایسے ہی ایک ترقی یافتہ ماڈیول پیش کرنا ہے، بلا شبہ انہوں نے اپنے حساب سے اپنی ترقی کے لیے ایک ماڈیول تو پیش کیا لیکن اس کے معاشرتی اور اخلاقی اصولوں کو بالکل ہی نظر انداز کرکے غیر قانونی طور پر ایسی ساری کراچی کی اپنے سپر اسٹورز کی برانچز بنائی ہیں۔ چونکہ انسانی تکلیف اور اخلاقیات یا قانونی دائروں کا ہمارے ہاں کوئی خاص رواج بھی موجود نہیں ہے ہمیں ان سے زیادہ مذہبی ٹچ اور موٹیویشنل کہانیاں پسند ہوتی ہیں۔ اس لیے ایسے تمام لوگ ہمارے لیے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔
بہرحال اس سے ہٹ کر بھی رمضان کی آمد پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ثقافتی تہوار کی صورت اور ایک خوشی کے موقع کے طور پر مزید اپنی پوری مذہبی تہذیبی اقدار کے طور پر آتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے، کہ پاکستان میں رمضان کا مہینہ ایک عام شہری کے لیے اس خوشی اور ثقافتی اظہار سے زیادہ مہنگائی اور پریشانی کا سبب بن جاتا ہے، پھل سبزی سے لے کر لباس و دوسری ہر شے کی قیمت عام دنوں کے مقابل پہلے سے بڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ریاست تو خیر سے اس معاملے میں کبھی سپورٹ نہیں کرتی، مگر اس نظام میں جو لوگ بظاہر ہمیں خدمتگار محسوس ہوتے ہیں، کیونکہ رمضان میں وہ غریبوں کو آٹا اور چینی بانٹتے ہیں، لیکن بالعموم قیمت میں رعائت نہیں کرتے، اور غیر معیاری اور معیاد سے زائد اشیاء بیچنے کا دھوکہ دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ پاکستان ی۔ اچھے فوڈ چین ڈیپارٹمنٹل اسٹور کی ضرورت ہے، سرمایہ دار کو یہاں بین الاقوامی طرز کی سہولیات دینی چاہئے، ایسے سرمایہ دار بھی ملک کی ضرورت ہیں، مگر وہ صرف بین الاقوامی ماڈیول کو کمانے کا واحد ذریعہ ہی نہیں بنائیں بلکہ عوامی سہولیات و اخلاقیات میں بھی بین الاقوامی اصول کو اپنائیں۔