Punjabi Tokri, Changeren, Hath Ke Pankhay
پنجابی ٹوکری، چنگیریں، ہاتھ کے پنکھے

قدیم زمانے سے ہی انسانوں نے سبزیوں کے ریشوں، درختوں کی جھال کو بُننے اور اس سے مختلف سامان بنانے کو نہ صرف اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کیا ہے بلکہ یہ معاشی طور پر ایک دستکاری کا مکمل پیشہ بن گیا، اہل عرب میں بھی کھجوروں کی چھال سے بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں، جو عموماََ گھریلو خواتین ہی کرتی ہیں، بر صغیر میں پنجابی وہ واحد قوم ہے جس کی خواتین نے ہمیشہ دستکاری میں کمال کیا ہے۔
اہل پنجاب نے ہی سفری ضرورت یا سامان کو اٹھانے کے لئے ٹوکری کے رواج کو قائم رکھا، بلا شبہ یہ بہترین سماجی خدمت کے ساتھ ساتھ گھریلو دستکاری کا ایک اہم حصہ تھا جس سے خواتین بھی معاشی استحکام میں حصہ لیتی تھیں، گھریلو دستکاری آج بھی پنجاب کے بیشتر حصوں میں موجود ہے۔ زیادہ تر دیہات کی خواتین روزگار کے ایک ذریعے کے طور پر ٹوکری کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ یہ ٹوکریاں بنیادی طور پر گھریلو مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، یہ آرٹ کے کام کے طور پر آراستہ ہونے لگے اور گھروں میں شو پیس اور آرائشی اشیاء کے طور پر استعمال ہونے لگی ہیں۔
اس ہنر مندی میں جن خطوں میں یہ خام مال، جیسے بانس، گنے، سرکنڈے، گھاس، مونج، کھجور کی پتے اور دیگر اشیاء کی وافر دستیابی ہے وہاں ٹوکری کو ایک مقبول گھریلو دستکاری بناتی ہے۔ اس کے علاوہ، عام طور پر "سرکنڈہ" کہلاتا یہ بھوسا ٹوکری کے لیے پنجاب میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ مختلف درختوں کی جھال یا تنوں سے، یا گھاس پھوس کے پتلے تنکوں سے مونڈ کر ٹوکریاں بنائی جاتی تھیں، گرمیوں میں گرمی سے پچاو کے لئے ہوا دینے کے لیے ان سے ہی ہاتھ کے پنکھے بنائے جاتے تھے، یہ ہاتھ کے پنکھوں کی روایت آج بھی کسی نہ کسی درجے میں زندہ ہے۔
اسکے علاوہ روٹیاں رکھنے کے لئے شہری زندگی میں اب Hot Pot استعمال ہوتے ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک چنگریں استعمال ہوتی تھی، پنجابی میں چنگیر کو چھابی بھی کہا جاتا ہے، گاؤں کی خواتین کا یہی کام ہوتا تھا کہ ساون کی حبس زدہ دوپہر کو کھجور کے بھیگے ہوئے رنگین پتوں کا برتن اٹھایا اور صحن کی گھنی چھاوں والے درخت کے نیچے ڈیرہ جما لیا۔ سرکنڈوں کو یکجا کیا اور اُن کے گرد ان رنگین پتوں کو لپیٹنا شروع کردیا، لپیٹتے لپیٹتے ایک مخصوص جگہ پر کھجور کے چیرے ہوئے پتے کی باریک شاخ کو ایک بڑی سوئی جسے "کھدوئی" کہا جاتا ہے، اس میں پرویا اور ٹانکہ لگادیا۔ اگلے حصے میں کھجور کے رنگین پتے ایک مخصوص انداز میں سرکنڈوں کے گرد لپٹتے اور ایک دو روز کے اس عمل کے بعد چنگیر مکمل ہو جاتی۔
ہاتھ سے جھلنے والے چھوٹے سائز کے پنکھے، جنہیں پنجابی میں "کنڈا لاڑ پکھی" بھی کہا جاتا ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں نظر آجاتے ہیں، پنجاب کے کئی دیہی علاقوں میں ان ہاتھ کے پنکھوں پر شوخ اوربھڑکیلے رنگ کے کپڑے کے غلاف بنا کر اس کو خوب عزت دی جاتی ہے، اس غلاف پر مختلف انواع کی کشیدہ کاری، چھوٹے چھوٹے شیشے اور کناروں پر لگی خوبصورت گوٹہ بیل یا جھالریں لگائی جاتی ہیں اس سے اندازہ لگائیں کہ اس پر کتنی دل لگی اور محنت سے کام کیا گیا ہے اور یہ ہماری ثقافت کا کتنا اہم جزہے، اسی دستکاری سے متعلقہ دیگر مصنوعات میں ٹوکریاں، چاج، چنگیر، ٹفن کی ٹوکریاں، کچرے کی ٹوکریاں اور بیضوی شکل کے برتن، ڈھکنوں کے ساتھ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ صفائی کے لئے جھاڑو، چٹائیاں، دروازوں کے پردے جنہیں چک کہا جاتا ہے شامل ہیں۔ ان میں سے کئی دستکاریاں تو پنجابی ثقافت کا ایسا حصہ بنی ہیں کہ ان پر ثقافتی گیتوں میں آپ کو ان کی جھلک نظر آتی ہے۔
جیسے دروازے کے پردے "چک" پر یہ معروف پنجابی گانا ہے۔
عاشقاں توں سوہنڑا مکھڑا لکان لئی
سجنا نے بوہے اتے چک تان لئی
نوٹ: آج بھی کئی پاکستانی سیاحتی مقامات پر آپ کو یہ گھریلو دستکاری کی مصنوعات نظر آ جائیں گی، اب تو یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ انہیں استعمال کے لیے لیا جائے بلکہ انہیں گھریلو سجاوٹ اور شوبیز کے طور پر بھی خریدا جاتا ہے۔

