Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Pakistan Zindabad

Pakistan Zindabad

پاکستان زندہ باد

کہنے کو عجیب بے تکی باتیں ہوسکتی ہیں، میں نے پاکستان اور سعودی دفاعی معاہدے پر کچھ نہیں لکھا، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وقت نہیں مل سکا تھا اور عمومی پاکستانی عوامی بیانیے کی طرح میری رائے بالکل بھی ویسے نہیں تھی، لیکن کل شام کچھ ایسا ہوگیا کہ مجھے لگا کہ مجھے یہ بات شیئر کرنی چاہئے۔ پچھلے قریب دو ہفتوں سے ہماری کمپنی میں سالانہ ہیلتھ انشورنس ختم ہونے کے قریب تھی اور چونکہ کمپنی کے پاس سو سے زائد ملازم موجود ہیں تو کمپنی ایڈمنسٹریشن نے اس دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ ایک بہت بڑی رقم انشورنس کو ادا کی جاتی ہے، تو کوئی کم قیمت کی ایسی ہیلتھ انشورنس بنائی جائے جس میں پیسے بھی بچ جائیں اور جب پیسے بچائیں گے تو ظاہر ہے کہ ہیلتھ انشورنس گارڈ پر صحت کی سہولیات بھی کم ہو جائیں گی۔

جب یہ بات ڈسکس کی گئی تو ہمیشہ کی طرح ہماری کمپنی میں کبھی بھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی، لیکن یہ ہمت بھی ہمیشہ کی طرح میں نے ہی کی اور میں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ کمپنی میں 100 سے زائد لوگ موجود ہیں اور آپ اگر ہلکی انشورنس پالیسی بنائیں گے تو یہ بہت سارے لوگوں کو ایفیکٹ کر سکتی ہے اس میں ان کو پراپر سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی ہو سکتی ہے۔ میں نے کافی بحث مباحثہ بھی کیا تھا، کل شام کو میں آفس ٹائمنگ کے بعد تاخیر سے مینجمنٹ افس میں بیٹھا رہا، جہاں پر یہ بحث شروع ہوئی اور ایک بار پھر بڑی گرما گرم بحث ہوگئی، کمپنی کے مالک کے بیٹے ہی ہمارے باس ہیں، وہ مجھے یہ سمجھا رہا تھا کہ ہم جو نئی پالیسی لے رہے ہیں، اس میں بھی اتنی سہولیات موجود ہیں اور بس قیمت کم ہیں میں نے اس سے کوٹیشن اور سہولیات کی تفصیلات مانگی اور جب وہ دیکھی اور ان کو کمپیئر کرکے دونوں کو دکھایا کہ یہ کم قیمت انشورنس صحت کے بہت سارے معاملات میں آپ کی مکمل بنیادی ہیلتھ کو کور نہیں کرتی، تو وہ کہنے لگے کہ بہت بڑا فرق ہے ہم یہی بنائیں گے۔

میں نے کافی بحث کی بے، آخر جب وہ لوگ نہیں مان رہے تھے تو میں نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے، آپ کا جو دل چاہتا ہے وہ کر سکتے ہیں، لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ 100 سے زائد انسان اس کمپنی میں ملازم ہیں، جن میں مختلف عمروں کے لوگ موجود ہیں آپ کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ پورے سال میں کتنے ہی لوگ جو 40 سال سے زائد عمر کے ہیں ان کو ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے یا کوئی اور اسی طرح کے کئی مسائل ہو سکتے ہیں کسی فرد کو کسی متعدی بیماری کا ظہور ہو سکتا ہے اس صورت میں جب اس کا انشورنس اس سطح پر کلیم نہیں ہوگا تو آپ کو اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا اور اگر مجھے بھی کہیں پر بھی اپروول میں کوئی تکلیف ہوئی تو میں کیش پیسے دے کر آپ کے ذمے وہ پیسے آپ پر کلیم کرونگا پھر آپ جانیں اور انشورنس کمپنی جانے، مگر میں تو آپ سے پیسے وصول کروں گا۔

باس کے بیٹے نے جوابا کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا جب ہم نے آپ کے انشورنس کارڈ دے دیا تو ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی، میں نے کہا نہیں حکومت نے یہ انشورنس کارڈ لازمی صرف اس لیے رکھا ہے ملازمین کو یہ تحفظ دے دیا جائے کہ ان کی ہیلتھ انشورنس کمپنی کر رہی ہے، ورنہ اصولا آپ کے ذمے ہیلتھ انشورنس کارڈ بنانا نہیں بلکہ قانون کے مطابق میڈیکل پرووائڈ کروانا ہے۔ جسے حکومت ہیلتھ کارڈ کی صورت انڈروز کرواتی ہے، لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو انتہائی گھٹیا قسم کا کارڈ بنوائیں جس پر پراپر میڈیکل کلیم ہی نہ ہوتا، اگر یہ کارڈ بنیادی سہولیات پر کوالیفائی نہیں کرے گا، تو اس کے اضافی رقم آپ کو ہر صورت بھرنی پڑے گی، جو اس وقت بچائی جانے والی رقم سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور میں سے چیلنج کروں گا۔ سعودی عرب میں جو لوگ رہتے، ہیں ان کا اندازہ ہوگا کہ یہ جملہ کمپنی مالکان کو بولنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن میں نے بولا، کیونکہ وقتی طور پر آپ جو پیسے دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق کسی کی صحت کو یا جان کو تکلیف ہو سکتی ہے۔

باس کے ایک بیٹے نے کہا کہ یہ اچھی خاصی رقم کا فرق ہے، میں نے کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ کتنی بھی رقم ہے، یہ پیسے آپ نہیں کما رہے، بظاہر تو یہ آپ نے ہی ادا کرنے ہیں، لیکن یہ پیسے یہی لوگ کما کر دے رہے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ کو انہیں اچھی سہولیات دینا اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔ بحث کافی گرم صورتحال میں داخل ہوگئی تھی، لیکن میں نے بھی ہمت نہیں ہاری، میں نے کافی سخت آرگیومنٹ رکھے، ہاں اچھی بات یہ تھی کہ یہ باس کے بیٹے ابھی جوان ہیں اور جب میں نے کمپنی جوائں کی تھی تو یہ بچے تھے، اس لیے انہوں نے میری کافی سخت جملے بھی برداشت کیے۔

اتنی سخت بحث کے بعد ایک ایسا وقت ہے کہ میں نے اپنے آپ کو ایک ایسی کیفیت میں پایا کہ مجھے لگا کہ میں بالکل ایک غیر ضروری بحث کر رہا ہوں اس کا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہ کم قیمت کی نئی کمپنی سے ہی انشورنس پالیسی بنانے کو ترجیح دیں گے، میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بحث کو ختم کرنا چاہیے اور میں نے اپنی طرف سے ایک آخری جملہ کہہ دیا جو تھوڑا سخت بھی تھا کہ "آپ لوگوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ آپ کے ذمے مختلف قومیتوں کے 100 سے زائد افراد کی صحت کی ذمہ داری ہے اور اگر کچھ بھی ایسا معاملہ ہوا جس میں کسی کی جان کو تکلیف ہوئی تو آپ کو اس کی ذمہ داری بہرحال لینی پڑے گی۔ یہ خاصا سخت جملہ تھا۔

لیکن باس کے بڑے بیٹے نے جو اس وقت کمپنی کی بینک کی ایپ کھول کر پیمنٹ ٹرانسفر کر رہا تھا اس نے میری طرف دیکھا اور مجھے ہنستے ہوئے کہا: منصور۔ خوش ہو جاؤ! ویسے بھی تم لوگوں نے یعنی پاکستان نے سعودی عرب کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی ہے، میں نے تمہاری مرضی کے مطابق چاہے مہنگی ہی سہی، لیکن پرانی کمپنی کی اسی انشورنس کاپریمیم بھر دیا ہے۔ لمحے بھر کے لیے مجھے ایک خوشی کا احساس ہوا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے دفاع پر آپ مثبت منفی کتنے پہلوؤں سے بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں، میں اس پر بہت کچھ لکھ سکتا ہوں، لیکن میرے لیے باس کے بیٹے کا یہ جملہ دل میں ایک سکون کی طرح اترتا ہوا محسوس ہوا کہ

سعودی عرب کی حفاظت پاکستان کرے گا۔ اس لیے ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں۔

نوٹ:

1۔ ابھی رات میں شریف اللہ سے بھی دوں پر بات ہوئی تو اس نے اپنا عجیب و غریب قصہ سنایا کہ میں یوم الوطنی سے ایک دن پہلے گھر کے پاس ایک بقالے میں گیا تو وہاں سے میں نے کچھ اشیاء خریدیں تو ایک سعودی وہاں پر آیا اس نے مجھے دیکھ کر کہ کہا کہ کیا حال ہیں کیسے ہو تم کہاں سے ہو میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں تو وہ مجھ سے خوشی سے کہ پڑی اور کہنے لگا کہ تمہاری آج کی خریداری میری طرف سے ہوگی اور اس نے زبردستی شریف اللہ کا بل ادا کردیا اس نے کہا کہ تم لوگ ہمارے ملک کی حفاظت کررہے ہو۔

2- مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ اس بات کو کیسے سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں اس وقت سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لیے کافی عزت کا معاملہ بن رہا ہے، اس کی بہت ساری وجوہات اور بہت سارے منفی تبصرے بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ واقعی ایک خوشگوار احساس ہے اور اس کو ہم نے پہلی بار سعودی عرب کے قومی دن پر محسوس بھی کیا جب پورے سعودی عرب میں پاکستانی جھنڈے لہراتے نظر آئے۔ یعنی سعودی عرب نے اپنے قومی دن پر پاکستانی جھنڈے بھی لہرائے ہیں یہ ایک بڑے فخر کی بات بہرحال ہے اس لیے سارے تجزیے اپنی جگہ رہیں گے جو مثبت و منفی پہلو ساتھ رکھتے ہوں گے، لیکن یہ خوشی کا احساس بہرحال ان سب پر بھاری ہے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr