Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Pak Bharat Jang, Mera Tajzia

Pak Bharat Jang, Mera Tajzia

پاک بھارت جنگ، میرا تجزیہ

میں جنگ کا حامی نہیں ہوں، امن کا خواہشمند ہوں، لیکن اس دفعہ جنگ پر اپنے ملک کی جانب سے دفاعی حملے پر دل خوش ہوا ہے۔ خوشی اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے دفاع سے یہ میدان جیتا ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، ہمارے عمومی روئیے اور ہمارے تجزئیے سب پڑھے، اس لیے جو مجھے درست لگتا ہے، میں اس پر اپنا موقف لکھ رہا ہوں۔

سب سے پہلے تو ایک بات یہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ دانشور بہت قابل عزت بھی ہیں، انہوں نے یہ لکھا کہ اس جنگ کے بعد ہم امریکہ کے چنگل سے نکل گئے ہیں اور اب ہمیں چین کی جھولی میں بیٹھنا چاہیے، (یہی مفہوم تھا ان کی تحریر کا)، مجھے ہمیشہ اسی تصور سے نفرت ہے کہ پاکستان کو خودمختاری کا سفر کرنا چاہئے، امریکا کے بعد چین کو ابا جان بنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، یہ درست ہے کہ پاکستان ایک کمزور معاشی ملک ہے اور خطے کے اعتبار سے ہماری بہرحال ایک حیثیت ہے کہ دنیا کے بڑے سٹیک ہولڈرز کو ہماری ضرورت ہے۔

ہم نے اپنی قیمت صرف ان کے مفادات کے لیے جز وقتی نہیں لگانی بلکہ اپنی عوام کے لیے اور اپنے بہترین مفادات کے لیے لگانی ہے۔ ہمیں جھولیوں میں بیٹھنے کے بجائے آج کی دنیا میں موجود طاقت یعنی معیشت پر توجہ دینا ہے۔ ماضی میں ہندوستان کی جانب سے مسعود اظہر کی طرف اقوام متحدہ میں جب بھی توجہ دلوائی گئی، ہم نے چین کے ذریعے اسے ویٹو کروایا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آج چین کی ترقی معاشی ہے اور ہماری جنگ میں وہ بھی سٹیک ہولڈر ہے۔

ہندوستان کا پہلگام کا الزام غلط ہوسکتا ہے، مگر ہماری سچائی ہمارے ملک میں مسعود اظہر اور حافظ سعید جیسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سپورٹ بھی بہرحال ہمارے ہی ملک کا نقصان ہے۔ شائد ماضی میں ہمارے کرتا دھرتاؤں نے وقتی طور پر نان سٹیٹ ایکٹرز کی خدمات حاصل بھی کی ہوں گی لیکن یہ نان سٹیٹ ایکٹر سرحد پار سے زیادہ سرحد کے داخل ہمارے لوگوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کی مذہبی ایلیٹ کی بھی اس فکر کو سپورٹ حاصل ہے، ہندوستان ہندو اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سیکولر کہلاتا ہے۔

حالانکہ مودی نے اسی سیکیولرازم کو برباد کردیا ہے، مزید کئی لوگوں سمیت مشتاق صاحب جیسے معروف شخص کا انتہائی بودا و عامیانہ استدلال جسے وہ کفر و اسلام کی جنگ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں، یہ ایک گھٹیا اپروچ ہے جو حقیقتا غلط ہی رہے گی۔ پاکستان نے پاکستان کی افواج نے اس کڑے وقت میں جب دفاع میں اپنی پیشاورانہ سے صلاحیتوں کا ایسا بدو مظاہرہ کیا کہ اس بھرپور مظاہرے نے نہ صرف ہندوستان بلکہ اسلحہ سازی کے میدان کے بڑے بڑے ملکوں کو حیران بھی کردیا بلکہ ان کی پروڈکٹ پر ہندوستان کی وجہ سے سوال اٹھ گئے۔

اس جنگ میں پاکستان کا ساتھ کسی بھی مسلمان ملک نے نہیں دیا، حتی کہ فلسطین کے صدر نے ہندوستان کے لیے حمایت میں آفیشل بیان دیا، مزید ہمارے پڑوسی میں افغانستان میں گھٹیا پن کی انتہا کر دی گئی، عرب ممالک میں سے ظاہر ہے کوئی بھی آپ کا ساتھ ریاستی سطح پر نہیں دے سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ عرب مالک ایران یا ملائشیا شاید پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہتے ہوں گے، لیکن ریاستی سطح پر کبھی بھی کوئی ایسا بیان نہیں دے سکتا نہ ہی پاکستان یا پاکستانیوں کو ایسی امید رکھنی چاہیے۔

یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر عرب ممالک اور مسلمان ممالک کی روڈز پر یا ٹک ٹاکرز ہمیں پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں بلکہ عرب ممالک میں عوامی سطح پر یعنی مجھے سعودی عرب میں کئی سعودیوں نے بہت خوشی سے مبارک دی۔ ہمیں بغیر جذباتیت ایک بات سمجھنا ہوگی کہ ان مسلمان ممالک کے عوام کا یہ ایک جذباتی اور عوامی رویہ ہے جس کا ایک پس منظر بہرحال یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے عرب ریاستوں میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور کہیں پر بھی کسی بھی مسلم ریاست کی طرف سے غیر مسلم طاقت کے خلاف کوئی بڑی مزاحمت نظر نہیں آئی۔

یہ مزاحمت ایک دن میں ہی ایسی تھی جس نے ایک انڈیا جیسی بڑی طاقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ نہ صرف انڈیا کو ہلایا بلکہ وہ بڑے طیارے جن پر کئی بڑی طاقتوں کی معیشت ٹھہری ہوئی تھی ان تیاروں کی تباہی ہوئی، اس لیے یہ وہ ایک خوشی کی لہر کہہ لیں جو ایک عام آدمی فلسطینی یا لبنان یا کہیں پر بھی مسلمانوں کو درد میں دیکھتا تھا روتے ہوئے دیکھتا تھا مرتے ہوئے دیکھتا تھا تو اس نے اس مزاحمت کو ایک فتح کے طور پر لے لیا خوشی کے طور پر لے لیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک اچھی بات ہے ہمارے لیے بھی اور ہمارے لیے ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کا امیج عرب ریاستوں میں تھوڑا سا کمزور تھا جس نے ہمیں مزید عزت بھی دے دی۔

لیکن اس سے ہٹ کر کوئی بھی عرب ملک یہاں کوئی بھی مسلم ملک راستے سطح پر پاکستان کا ساتھ یک طرفہ نہیں دے سکتا، ایسی جگہوں میں کوئی بھی کھل کر ساتھ نہیں دے سکتا۔ ریاستی سطح پر ہمیں کوئی پذیرائی نہیں ملنی تھی لیکن ہمارے دفاعی اقدام نے بہرحال ہماری عزت بین الاقوامی سطح پر مقبول کروا دی، لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ ہم تو اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ ترکی کے کسی ٹک ٹاکر کا یا نیپال کی کسی ٹک ٹاکر لڑکی کی پاکستان کی ستائش کو ہم اس ملک کا بیانیہ سمجھیں۔ خوشی بہرحال بہت ہوئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بہت ساری چیزوں کو سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں معاشی طاقتیں ہی اپنے ساتھ لوگوں کو جمع کر سکتی ہیں۔

وہ بے وقوف جو اس خطے کی جنگ کو اور در اندازی کے مسائل اور پاک و ہند میں موجود وسائل کی جنگ کو کفر و اسلام بنا کر پیش کررہے ہیں، حقیقتا وہ فساد کا کام کررہے ہیں، خصوصا ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی جس طرح تضحیک کی جا رہی ہے، بلکہ مجھے تو بطور ہندو بھی ہندوستان کے کسی فرد سے گلہ نہیں بلکہ ہندوتوا کے نام پر فساد پر انتہائی افسوس اور نفرت ہے، اس جنگ کی ابتداء سے پاکستان میں موجود تحریک انصاف کے کارکنوں کو جس طرح غدار کہا جارہا ہے، میں اس کے بھی خلاف ہوں حالانکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی ایک بڑی اکثریت کمینے پن میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ ان کا علاج ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود میں غدار کا ٹائٹل کسی کو دینے کے حق میں نہیں ہوں۔

ہمیں اپنی خامیوں کو بھی دیکھنا ہوگا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو ہمیں کمزور کرنا ہوگا تاکہ انڈیا ہم پر اتنی آسانی سے الزام نہ لگا سکے۔

آپ یقین کریں کہ انڈیا کی حالت جنگ سے پہلے بہت مضبوط تھی۔ لیکن ان کی نالائقی اور بدمعاشی کی وجہ سے وہ ذلت سے دو چار ہوئے، یہ تو اللہ کا خصوصی کرم ہے اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ ہمارے فوجی بھی بہرحال بہادر ہے۔ اللہ نے ہماری ہمارے ملک کی عزت بھی رکھی ہماری حفاظت بھی کی۔ مجھے مودی سے کوئی امید نہیں ہے وہ بھی جہالت کا استعارہ ہے اور ہمارے ہاں بھی بہت خرابیاں ہیں۔ اگر ہم اپنے نان سٹیٹ ایکٹر کو کنٹرول کریں، اگر دونوں ممالک اس طرح کی نفرتوں سے نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ معاشی سفر بہتر کریں تو ہم ایشیا میں بڑی طاقت بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔ میں ایسا ہی سوچتا ہوں کیونکہ بہرحال میں جنگ کا نہیں امن کا ہی خواہاں ہوں۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr