Padri Aur Shaitan
پادری اور شیطان

یہ وہ تحریریں ہیں جنہیں میں حقیقتا دل سے لکھتا ہوں، ان کتابوں کو پڑھ کر وقتاً فوقتاً، ایسا لگتا ہے کہ میں خود کو اپنے ہی ساتھ دور دراز کے جہانوں میں سفر کرتے پاتا ہوں۔ اس سفر سے لطف اندوز ہوتا محسوس کرتا ہوں۔ ادب کے سمندروں، کہانیوں اور ناول کے کرداروں کی خوشیوں اور غموں کا سفر کرتا ہوں۔ میں ان میں مختلف قوموں اور لوگوں کی ثقافتوں کو قریب سے دیکھ سکتا ہوں، ہم ان کی حاکمیت میں ظلم اور مذہب یا مقامی و فرسودہ روایات کی تشریحات کی بنیاد پر ہونے والے ظلم کے خلاف طویل جدوجہد اور ان کے تجربات اور اسباق سے سیکھ سکتے ہیں۔ فلسفیوں اور سائنسدانوں سمیت پڑھے لکھے طبقے نے انسانوں اور قوموں کی ترقی میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا ہے، لیکن ان کی جدوجہد ادیبوں اور مصنفین کی شرکت سے بہرحال الگ نہیں تھی۔
جس طرح فلسفیوں نے اپنے نظریات تخلیق کیے، معاشی، سماجی اور سیاسی حقیقت کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے تنقیدی رحجان کی کسوٹی پر رکھا، اسی طرح ادیبوں اور مصنفین کے پاس بھی ریاستی عملداری اور مذہب یا روایت کی بنیاد پر کئے جانے والے ظلم سے کچلے ہوئے عوام کے مظلوم طبقات کی سماجی حقیقت کو سامنے لانے کا اپنا اپنا طریقہ رہا ہے۔ فکشن لکھنے والوں نے بھی سماجی حقیقت اور مظلوم طبقات کے المیوں کو بیانیہ کے انداز میں پیش کیا، خوبصورت اور معاشرتی داستان کے طور پر جسے پڑھ کر قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ ان لوگوں کے المیوں اور مصائب کو جی رہا ہے، وہ ناول کی تشکیل، دیانت اور پوری شفافیت میں ایک زندہ حقیقت کو ظاہر کرنے کی صلاحیت کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔
ایسا ہی ایک ادیب فیودر دستوفسکی ہے، آج دنیا کے ادب کے بارے میں بات کریں تو اس کا ذکر نہ کیا تو موجود عہد تک کے انسانی ادب کی تکمیل شاید مکمل نہیں کہلائے گی، اس نے حقیقی معنوں میں ادب پر حکومت کی تھی، فیودر دستوفسکی نہ صرف ایک مصنف اور ناول نگار تھا، بلکہ ماہر نفسیات بھی تھا، جس کے لئے نفسیات کے علمبردار فرائیڈ اور فلسفی نطشے نے گواہی دی کہ اس نے جو بھی کہانی یا ناول لکھا اس میں اس نے قاری کو ایک پرلطف سفر پر پہنچایا، انسانی نفسیات کی داخلی گتھیاں، اس کے ناول کے کرداروں کے مصائب کی عکاسی بے مثال اسلوب کے بیانیہ کے ذریعے کی، دستوفسکی نے اپنے بیشتر ناولوں میں عقیدے یا الحاد سے اپنی قربت کو واضح طور پر بیان نہیں کیا، لیکن وہ اندرونی سکون کا پیاسا آدمی تھا۔
ممکن ہے کہ شائد وہ مذہبی طور پر بھی کسی تلاش میں تھا، خاص طور پر چونکہ اس نے اپنی ابتدائی زندگی مسلسل غربت، سانحات اور مصائب میں گزاری۔ اسے زندگی میں شک نے کبھی نہیں چھوڑا۔ اس کی سوچ، حقیقت کے بارے میں اس کی گہری آگہی اور اس کی مسلسل جدوجہد اس کے ناولوں میں مجسم نظر آتی ہے، جس سے اس بات پر متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں کہ اس نے اپنی فکر میں انسانی روح کو گہرائی کو بصیرت کے ساتھ چھوا ہے۔ خصوصا اس کی یہ شاہکار کتاب "The Priest and the Devil"، جو اس نے 1849 میں اپنی جلاوطنی اور قید کے دوران جیل کی کوٹھری کی میں لگی تھی۔
جس میں ایک پادری اور شیطان کے درمیان مباحثہ ایک خیالی مکالمے کی شکل اختیار کرتا ہے، جہاں شیطان حیران ہوتا ہے کہ پادری لوگوں کو جہنم کے عذاب کیوں بیان کرتا ہے، یہ سوچتے ہوئے کہ کیا وہ جانتا ہے کہ وہ واقعی اپنی زمینی زندگی میں وہ لوگ کس درجہ مصائب کا شکار ہیں۔ اس خیالی کہانی میں دستوفیسکی قاری کو شیطان اور پادری کے درمیان اس المیاتی زندگی کے مضمرات میں لے جاتا ہے، جس میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی طرف سے برداشت کیے جانے والے مصائب ہیں اور ان مصائب کو انوکھے انداز میں بیان کرتا ہے، کہ کس طرح پادری معاشرتی طور پر ناکام انسانوں کو بذریعہ مذہب استحصال کی طرف مائل کراتے ہیں، جنہوں نے غریبوں اور ناداروں کے دکھوں کا استحصال کرنے کے لئے مذہب کو پیشے کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔
دستوفیسکی کہانی کے آغاز میں، اس پادری کی طرف اس جملے کے ساتھ اشارہ کرتا ہے کہ "تم بڑے پیٹ والے"، تم بھوکے غریبوں کو تبلیغ کرتے ہو، انہیں تپسیا اور صبر کے ساتھ رہنے کی تبلیغ کرتے ہیں، مگر خود تم دنیا کی تمام لذتوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہو، دوستوفسکی خوبصورتی سے شیطان کے الفاظ کا حوالہ دیتا ہے، کہ مذہبی رہنما ریاستی حکام کو زمین پر اس کے نمائندے کے طور پر بیان کرتا ہے، اس بات کی مثال کے طور پر کہ ریاستی اتھارٹی اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ کس طرح لوگوں کو غریب کرنے اور انہیں جہالت میں غرق کرنے میں شریک ہیں۔ دستوفیسکی کمال انداز میں اس مکالمے میں شیطان سے پادری کو گریبان سے پکڑ کر اسے زمین پر جہنم کے سفر پر لے جاتے ہوئے کہتا ہے کہ تم نے ان غریب، گمراہ لوگوں سے کیا جھوٹ بولا؟ تم نے انہیں جہنم کی کون سی اذیتیں دکھا کر بیوقوف بنایا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ پہلے ہی وہ عذاب جھیل رہے ہیں جو تم زمین پر ان کی زندگیوں کو بھگت رہے ہو؟ زمین پر آنے والے وفود کو جہنم کی اذیت پہنچانے والے تم ہی ہو، کیا تم یہ نہیں جانتے تو میرے ساتھ چلو"۔
شیطان نے پادری کو اس کے گریبان سے باہر نکالا اور اسے ایک لوہے بنانے والے فیکٹری میں لے گیا جہاں لوہا بنایا جارہا تھا۔ وہاں اس نے کارکنوں کو آگ میں جلتے دیکھا، شدید گرمی میں جھلس رہے تھے۔ گرم ہوا نے جلد ہی پادری کو پسینے سے بےحال کردیا وہ شیطان سے التجا کرتا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ "مجھے جانے دو! مجھے اس جہنم سے جانے دو! "۔ شیطان کہتا ہے کہ اوہ، میرے پیارے دوست، مجھے ابھی آپ کو بہت سی دوسری جگہیں دکھانی ہیں۔ "شیطان اسے دوبارہ پکڑ کر کھیتوں کی طرف کھینچتا ہے، وہاں وہ کسانوں کو اناج کی کٹائی کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ دھول اور گرمی برداشت نہیں ہوتی۔ ان کی نگرانی کرنے والا ایک چابک لے کر کھڑا ہے، جو سستی سے کام کرنے والوں کو بے رحمی سے مارتا ہے جب وہ کسان کام کی زیادتی یا بھوک سے تھکن سے مغلوب ہورہے ہوتے ہیں۔ ان کی بد بو دار کوٹھریوں اور گھروں میں غربت اور مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ، کیا یہ کافی نہیں ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ خود شیطان کو بھی لوگوں پر ترس آرہا ہے اور پادری اس وقت ہاتھ اٹھا کر التجا کرتا ہے، "مجھے یہاں سے نکلنے دو، ہاں! یہ زمین پر جہنم ہے! ، شیطان کہتا ہے کہ دیکھو تم ان لوگوں کو ایک اور جہنم کا خوف دلاتے ہو، یہ لوگ تو اخلاقی طور پر موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں، یہ لوگ جسمانی موت کے علاوہ ہر چیز میں مر چکے ہیں! ہم اس دنیاوی جہنم کا کیا کریں گے جس میں ہم رہتے ہیں، جسے ہم آخرت کے جہنم کے بارے میں اپنے خیالات کی وجہ سے بھول جاتے ہیں؟ حکام یہی چاہتے ہیں کہ ہم حقیقت کو بھول جائیں اور خوف میں زندگی گزاریں، اپنے خوابوں اور امیدوں کے بوجھ تلے، جب کہ وہ خود اس دنیا اور اس کی جنت سے لطف اندوز ہوں۔۔
چلو! میں تمہیں ایک اور جہنم دکھاتا ہوں۔۔ ایک آخری جہنم۔۔ اب تک کا بدترین جہنم۔ "وہ اسے ایک جیل میں لے گیا اور اسے جیل میں چھوڑ دیا، جیل میں پھیلی ہوئی بوسیدہ ہوا، جیل کی زمین، کیڑے مکوڑوں سے ڈھکی ہوئی، ایک ایسی جیل میں جہاں کوٹھری گندی ہوا سے بھری ہوئی ہے اور قیدی کمزور، لاغر اور صحت سے محروم لوگ موجود ہیں، شیطان نے پادری سے کہا: "اپنے جسم کے کپڑے اتار دو، اپنے اوپر اس طرح کی بھاری زنجیریں ڈالو، ٹھنڈی، گندی زمین پر لیٹ جاؤ اور پھر انہیں اس جہنم کے بارے میں بتاؤ جو ابھی تک اس جہنم کا انتظار کر رہے ہیں۔! " پادری جواب دیتا ہے، "نہیں، نہیں! میں اس سے زیادہ خوفناک چیز کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں، مجھے یہاں سے نکل جانے دو! " شیطان کہتا ہے! ہاں، یہ جہنم ہے۔ اس سے بدتر کوئی جہنم نہیں ہو سکتی۔
دستوفیسکی اپنی کہانی کا اختتام شیطان کے ان الفاظ کے ساتھ کرتا ہے کہ جو پڑھنے والوں کی یادداشت میں مصائب اور مصائب کے تقریباً ہم معنی ہر لفظ کو کندہ کردے، بالکل اسی طرح جیسے پانی ایک پتھر کو ایک سچے آئینے کی طرح کندہ کرتا ہے، جس سے اس کی انسانیت، اس کے جذبات، اس کی وسعت قلبی، دوسروں کے دکھ میں اس کی ہمدردی اور ان لوگوں سے اس کی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے جو زمین پر خدا کے دعویدار ہیں۔ مگر وہ غریبوں اور ضرورت مندوں کے مصائب اور ان کی ضرورتوں کیل قیمت پر بھی فائدہ اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں، دھوکہ دہی، منافقت اور تجارت کی مقدار جس سے پادری خود روزی کماتے ہیں، شیطان پادری سے کہتا ہے، ہاں یہی جہنم ہے اور اس سے بدتر کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا؟ کہ یہ مرد اور عورتیں جنہیں تم بعد کی زندگی کی جہنم کی تصویر سے خوفزدہ کرتے ہو۔۔ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ وہ اب اپنی موت سے پہلے جہنم میں ہیں؟
دستوفیسکی اس مکالمے سے ہم تک کیا پہنچانا چاہتا تھا، اس کہانی کے حاشیوں کے درمیان، ایک ایسی حکمت جس پر ہم اکثر خود کو غور کرنے کا موقع نہیں دیتے۔
نوٹ:
1- دستوفیسکی کی کتاب شیطان و پادری کے مکالمے پر یہ کوئی واحد کتاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی لوک کہاوتوں میں شیطان اور پادری کے مکالمے موجود ہیں اس پر فلمیں ڈرامے اور فکشن لکھے جاچکے ہیں۔
2- کئی دوست سمجھتے ہیں کہ شعور و وجود کی ان کیفیات پر دستوفیسکی یا پال سارتر ہی نے بہت اعلی کام کیا ہے، حالانکہ میں اس سے پہلے عرب ابن طفیل کی حئی ابن ایقان کتاب پر بھی لکھ چکا ہوں، وہی اس موضوع پر سب سے مستند و قدیم قصہ ہے۔ جس میں انسانی وجودیت کا مباحث انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا۔

