Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Main Gila Kis Se Karoon

Main Gila Kis Se Karoon

میں گلہ کس سے کروں

لوگ مجھے کہتے ہیں کہ خدا ہمارا امتحان لے رہا ہے اور اس کی خاموشی ایک ایسی حکمت ہے جسے ہم نہیں سمجھتے، لیکن وہ ایسی حکمت کیوں رکھتا ہے کہ جنگوں میں مائیں اپنے بچوں کے لیے روتی رہیں؟

اس کی حکمت ایسی کیوں ہے؟ جو بچوں کو بھوکے اور لوگوں کو ظالموں کے پاؤں تلے کچل دیتی ہے؟

کاش خدا اس زمین کو ایک کھلا زخم نہ بننے دیتا جس سے ہر نئے دن کے ساتھ خون بہتا ہے۔

ایک حقیقت جو میری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی بچانے کے لیے کسی نادیدہ ہاتھ کے بغیر گزرتی ہے اور نہ ہی مجھے لگتا ہے کہ ہماری برائیوں کا ذمہ دار شیطان ہے۔ اس ٹوٹی پھوٹی دنیا میں کچھ نہیں ملے گا سوائے ایک گہری خاموشی کی بازگشت کے، جہاں ہمارے درد کی چیخوں کی گونج موجود ہے مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔

اے خدا! یہ کون لوگ ہیں جو تیرے ماننے کا دم بھرتے ہیں، یہ تیرے ماننے والے کتنے ہی ان گنت گروہوں میں بنٹے ہیں، یہ سب ماننے والے گروہ اپنی اپنی کتابوں سے چمٹے رہتے ہیں، ان کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ معجزات سے حاملہ ہوں، لیکن وہ ان کتابوں کے بکھرے ہوئے صفحات کے ساتھ صرف نفرت کے بارے میں ہی کیوں بتاتے ہیں، وہ تیری اطاعت کا مطالبہ تو کرتے مگر پھر جنگ شروع کرتے ہیں۔

اے خدا! کیا یہ نفرت والے تیرے الفاظ ہوسکتے ہیں جو یہ تیرے نام سے کہتے ہیں، پھر جس کی رحمت کا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ کیا یہ وہ روشنی ہے جو راستے کو روشن کرتی ہے؟

اور جب میں ان ان گنت سانحات میں ان سے حکمت کے بارے میں پوچھتا ہوں تو مجھے ان کی مبہم سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، پھر وہ سب ہوا میں ایسے بھاگتے ہیں جیسے وقت ہمارے ہاتھوں سے بھاگ رہا ہو۔

اے خدا! مجھے آج بتادے کہ اس درد کے پیچھے کیا حکمت ہے، جو بھوکوں کے چہروں پر بسی ہوئی ہے؟

اس تباہی کا کیا فائدہ، جو بے گناہوں کی جانیں نگل جائے؟

وہ مجھے ایک ناقابل فہم حکمت کے بارے میں بتاتے ہیں، گویا یہ ایک راز ہے جسے صرف منتخب لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں، لیکن میرے جیسوں کا کیا ہوگا جو زندگی کو اپنی ہی پستیوں میں گرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟

میں کون ہوں کیا میں بھی ان کی طرح ان کتابوں کی لکیروں کے درمیان معنی تلاش کروں؟ یا میں بھی ان بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح تاریخ کے صفحات میں لافانی ہونے کی تلاش میں ہوں؟ جو شائد دنیا پر اپنے نشان چھوڑنے کا خواب دیکھتے ہوں، ان جیسوں میں سے ایک بننے کا جن کا نام وقت کی یاد میں گونجتا ہے، لیکن یہ خواب بھی، یہ عزائم بھی ہوا سے بکھری ہوئی راکھ کی طرح گھل جاتے ہیں، تو کیا قدر ہے اس دنیا میں کسی کامیابی کی، جب ہم جانتے ہیں کہ انجام ایک ہی ہے؟ واپسی کے بغیر اندھیرا ہی اندھیرا۔۔

کبھی کبھی، مجھے معنوں کی تلاش کرنا ایک سراب کی طرح لگتا ہے، نہ افزودہ اور نہ ہی قابل عمل۔ اک گروہ کہتا ہے کہ سائنس اس کا حل ہے

وہ کہتے ہیں کہ سائنس ہی اس کا حل ہے، لیکن جب ہم سائنس سے معنی کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو یہ ہمیں برف کی طرح سرد مہری دکھاتی ہے، جذبات سے عاری، ہمیں فطرت کے قوانین کے بارے میں بتاتی ہے جو بے رحمی سے کام کرتے ہیں۔

لیکن اصل سوال، خود سے پوچھنے کے قابل سوال: کیا ہمیں زندہ رہنا چاہیے؟ یا اس جہاں سے خاموش رخصتی ہی جواب ہے؟

میری خاموشی کے لمحات میں، جب رات میرے ساتھ اکیلے ہوتی ہے، ابدی نیند اس دنیا سے فرار ہونے کے لیے مجھے اس لمحے امن کی پکار لگتی ہے، جو رحم کے کوئی معنی نہیں جانتی۔

یہ گروہ اپنی معنویت کی بھوک مٹانے کے لیے اپنی مرضی کے دیوتا ایجاد کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں آے خدا! تو کیوں خاموش رہتا ہے؟ جب جنگیں دنیا کو لپیٹ میں لے جائیں، زمین آتش فشاں سے لرزتی ہے اور سیلاب ہمیں بہا لے جاتے ہیں؟

اے خدا! ہم کیوں ایک بے ترتیب ارتقائی عمل کی پیداوار ہیں، جہاں ایسی دنیا حرکت میں ہے، جو ہماری تقدیر کی پرواہ نہیں کرتی۔

کبھی کبھی مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ روح؟ احساسات؟ یہ سب تصورات کے سوا کچھ نہیں ہیں، ایک کیمسٹری جو ہمارے ذہنوں میں دہرائی جاتی ہے تاکہ ہم محسوس کریں کہ اس کے لیے لڑنے کے قابل کچھ ہے، لیکن آخر میں، ہر چیز بس ایک مثال ہے، ہر خیال، ہر احساس، ہر چیز کا سراغ لگایا اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور مادی اور غیر مادی میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے ان کی تشکیل کے طریقے کے۔

میں خوفزدہ ہوں، موت اور موت کے بعد کی زندگی سے، پھر خدا ہمارا فیصلہ کرے گا، جہاں جہنم اور فیصلے کے بارے میں بات ہوگی۔

لیکن آخر میں، وہ سب کچھ ایک طویل نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔

بالآخر، سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں "زندگی" نامی اس کھیل کو جاری رکھنا چاہیے یا پھر پردہ کھینچ کر ابدی نیند سو جانا چاہیے اور اس بیہودہ زندگی کو اپنے پیچھے چھوڑ دینا چاہیے؟

اے خدا! مجھے کچھ تو جواب دے۔۔

Check Also

Shadi Ke 26 Saal

By Mubashir Ali Zaidi