Madinah Masjid Tariq Road
مدینہ مسجد طارق روڈ
میرا بچپن سارا طارق روڈ پی ای سی ایچ ایس میں ہی گزرا، وہیں پر تین دہائیوں پہلے مین طارق روڈ پر ایک بچوں کا پارک تھا، جو ڈالمین سینٹر کے برابر تھا، میں بچپن میں چند ایک بار اس پارک میں جاتا رہا، وہاں میں نے خود مغرب کی نماز میں اس پارک میں پہلے چند لوگوں کو دریاں بچھا کر نماز پڑھتے دیکھا، پھر آہستہ آہستہ وہاں کچھ حصے پر پلستر کرکے مصلہ بنتے دیکھا، پھر تبلیغی جماعت والوں نے وہاں تعلیم شروع کردی، آہستہ آہستہ مصلہ بڑھتا گیا، اور بالآخر پورے پارک تک پھیل گیا، پھر باؤنڈری بنی اور آہستہ آہستہ گئے سالوں میں یہ چار منزل تک کہ جامع مسجد بن گئی۔
میں نے کئی سال اس مسجد میں جمعرات کی رات کو اگلے جمعے کے دن کے لئے پوری رات صفائی بھی کی ہے، اس مسجد میں گھنٹوں نماز کے علاوہ بھی بیٹھا رہا ہوں، یہاں تبلیغی جماعت کی تعلیم میں بھی بیٹھتا رہا، جمعے کو نماز جمعہ کے لئے روڈ پر دریاں بھی رضاکارانہ بچھائی ہیں اور مسجد کی خدمت بھی کی ہے، مجھے اس مسجد سے محبت بھی ہے، میرے نئے اپارٹمنٹ کے بالکل قریبی ہے، مگر اس سب کے باوجود بات اصول کی ہے۔ یہ مسجد حکومت کی طرف سے بچوں کے پارک کے لئے مختص تھی، اسی ہفتے سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ دے دیا ہے کہ یہ مسجد ناجائز قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔
یہ فیصلہ کچھ لوگوں کے لئے اب مسئلہ بن رہا ہے، ہمارے ملک کی مشہور جماعت جمعیت علماء اسلام کے سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو صاحب نے اپنی جماعت کی مقامی اعلی سطحی وفد کے ساتھ ملاقاتیں شروع کی ہیں اور مسجد کے وکلاء کا دعویٰ ہے کہ مدینہ مسجد واقع طارق روڈ کراچی 1980 میں بنائی گئی، حالانکہ یہ مسجد کا۔ قبضہ سنہء 1990 کے بعد کا ہے، اس سے پہلے یہ مسجد مکمل نہیں بنی تھی کسی نہ کسی صورت پارک کی شکل میں ہی تھی، مدینہ مسجد کی زمین PEHCS کی ملکیت تھی جو تقریبا بعد میں سنہء 1994 میں باقاعدہ بنی تھی، NOC وغیرہ کے کھیل بھی اس ملک میں باآسانی حاصل کرلئے جاتے ہیں یہ سب معاملات انڈر ٹیبل مینج کئے گئے تھے۔
سب سے افسوسناک مسئلہ یہ ہے کہ مدینہ مسجد ٹرسٹ کو سنہء 1997 میں بنوری ٹاؤن ٹرسٹ سے باقاعدہ الحاق کروایا گیا، جس پر یقینا کوئی مذہبی علماء یہ رائے نہیں دیں گے کہ قبضے کی جگہ پر مساجد کیسے بن جاتی ہیں۔ پھر مدینہ مسجد ٹرسٹ کو بھی رجسٹر کروالیا گیا جس کی ہر سال تجدید کی جاتی رہی ہے، اس دعوے سے یہ ان کے خیال میں مسجد اب بالکل بھی غیر قانونی نہیں رہی۔ ویسے تو طارق روڈ پر اور بھی کئی مساجد غیر قانونی ہیں، صرف تین کلو میٹر کی باؤنڈری میں ایسی ہی تین غیر قانونی قبضے کی مساجد موجود ہیں، جن میں مسجد فور اسکوائر بریلوی مکتبہ فکر کی ہے اور الفلاح کے پاس اہلحدیث کی ایک مسجد بھی ایسے ہی غیر قانونی ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ کراچی اور سندھ کے کئی نامور علماء دیوبند اس مدینہ مسجد کا مقدمہ جوشیلی تقریروں سے لڑ رہے ہیں، وہ اس معاملے کو اسلام کی جنگ بنا رہے ہیں اور قبضے کی مسجد کے لئے ایسی تقاریر کررہے ہیں، جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ اگر یہ علماء کرام اللہ کے رسول ﷺکے عہد میں ہوتے تو مسجد نبوی کے لئے جگہ پر یتیموں کو اس مسجد کی قیمت دینے کے بجائے قبضے کا ہی کہتے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ان کے سامنے اللہ کے رسول ﷺ کا اتنا واضح عمل موجود ہے پھر بھی یہ ایک قبضے کی جگہ پر مسجد کو جسٹیفائی کررہے ہیں اس وقت اس قبضے کی مسجد کی دفاع میں راشد محمود سومرو کے علاوہ، مولانا محمد غیاث صاحب، مولانا امین اللہ صاحب، سید فاروق حسن زئی صاحب کے علاوہ کثیر تعداد شامل ہے۔
ویسے تو ملک بھر میں کئی مساجد و مدارس اسی طرح قبضے سے ہی بنائے جاتے ہیں، مگر حیرت ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم علماء کہتے اور سمجھتے ہیں اور ان کے کردار دیکھیں کہ یہ بچوں کے پارک پر قبضہ کی جانی والی مسجد کو ڈھٹائی سے منبر رسول پر بیٹھ کر جسٹیفائی کررہے ہیں سوشل میڈیا پر اس قبضے کو ڈھٹائی سے درست ثابت کرنے والے عجیب و غریب دلائل بھی دے رہے ہیں۔