Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Kya Taqdeer Insan Ki Bebasi Ka Naam Hai?

Kya Taqdeer Insan Ki Bebasi Ka Naam Hai?

کیا تقدیر انسان کی بے بسی کا نام ہے؟

تقدیر کا فیصلہ انسانی نہیں ہے، مگر تقدیر کے سامنے ہار ماننے کے تصور کے سوا بھی ہمارے بس میں کچھ نہیں رہتا، یا پھر ہم تقدیر پر راضی ہونے کو قبول کرلیتے ہیں، یعنی ہم تقدیر پر راضی ہیں، بلکہ ایک قدم آگے جا کر تقدیر پر شکر کریں۔ مگر تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیوں نہ کریں؟ مگر یہ بھی ممکنات میں سے نہیں رہتا شائد، ویسے تقدیر کا مقابلہ کرنے کا بھی ایک وقت ہے اور ایک وقت ایسا بھی ہے جس میں تقدیر کے ساتھ چلنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں بچتا، چاہے وقتی ہو یا آخری سانس تک، یہ وہ تلخ سچائی ہے جس کا ادراک اگر ہم عقل سے نہ کریں تو زندگی ہمیں اس کا ادراک کرنے پر مجبور کر دے گی۔

مثال کے طور پر، بیماری میں علاج کے دوران بیماری کے خلاف مزاحمت کا ایک وقت ہوتا ہے اور جب بیماری دائمی ہوجائے اور صحت یابی ناممکن ہو جاتی ہے۔ تب بیماری کے ساتھ رہنے کا وقت ہوتا ہے، تو تقدیر پر راضی ہونا ہی پڑتا ہے۔ جیسے کوئی شخص تنزلی میں جارہا ہے، تو اس تنزلی یا گرنے کی ابتداء میں بھی مزاحمت کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے کامیاب ہوگئے تو تقدیر سے مقابلہ ٹہرا اور اگر گرتے وقت ہم توازن کھو بیٹھتے ہیں اور گرتے ہیں یا گرتے ہی چلے جاتے ہیں، تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ گرنا ناگزیر ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم خود کو ناگزیر سچائی کا سامنا کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ ہم اپنے جسم کا ایک نازک مجسمہ اپنے ساتھ عارضی طاقت میں لے کر چلتے ہیں، کیونکہ وقت کے بوجھ میں سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔ جب رنگ ختم ہو جائیں اور حدیں تحلیل ہو جائیں تو کیا باقی رہ جاتا ہے؟ جب روشنیاں چلی جائیں اور جسم مر جائے تو کیا بچتا ہے؟

ہم وہم سے بنی دنیا میں رہتے ہیں، ہمیں خوبصورتی نظر آتی ہے جہاں بربادی ہوتی ہے اور ہم ایسے نظریوں کو تھامے رہتے ہیں جو قائم نہیں رہتے۔ ہم ایک انجان سڑک پر سفر کرتے ہیں، جہاں جسم اور چہرے خاک میں بدل جاتے ہیں۔

ہم مظاہر کے سراب کی آرزو کرتے ہیں۔ یہ سب سے بڑا دھوکہ ہے: ظاہری شکل سے دھوکہ کھا جانا اور باطن سے غافل ہونا، اپنے اردگرد پھیلی فنا کی گہرائی کو نہ سمجھے لمحے کے حسن میں ڈوب جانا۔

آخر میں، جب آخری موم بتی بجھ جاتی ہے، ہم ننگی سچائی کو دریافت کرتے ہیں: روحیں، وہ ابدی سائے جو ہمارے ارد گرد منڈلاتے ہیں، صرف وہی ہیں جو وقت اور جگہ کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہیں۔ تاہم، جس لمحے ہمیں اس راز کا ادراک ہوا، بہت دیر ہو چکی ہے۔ موت نہ صرف جسموں کو تباہ کرتی ہے، بلکہ ہمیں حواس کی فنا بھی دکھاتی ہے، ہمیں جدائی کے اندھیروں میں پھنسا کر چھوڑ دیتی ہے۔

کیا ہم سچے سائے کو گلے لگانے کے لیے، ان کھوئی ہوئی روحوں کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں جو رات کو بھٹکتی ہیں اور ان میں وہ سکون پاتے ہیں جو ہم مردہ دنیا میں بیکار تلاش کرتے ہیں؟

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr