Khawateen Ke Ilaqai Malbosat Ka Taaruf
خواتین کے علاقائی ملبوسات کا تعارف
اکثر ہمیں سعودی عرب میں مردوں میں سفید رنگ کا "ثوب" جبہ ہی پہنا نظر آتا ہے، سعودی مرد مغربی لباس بھی پہنتے ہیں لیکن مقامی طور پر نوکریوں میں وہ سفید ثوب ہی پہنتے ہیں، یہ ان کا قومی لباس بھی ہے، یہ نہ صرف سعودی عرب، بلکہ امارات اور قطر وغیرہ میں بھی قومی لباس ہے۔ مگر عرب خواتین کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے، کہ ان کا لباس بھی ایسا ہی کچھ سادہ ہے یا ایک جبہ نما ہوگا، لیکن پورے عرب میں خصوصا سعودی عرب میں تو ہر خطے اور ہر قدیم شہر کے اپنے روایتی لباس موجود ہیں۔ یہاں خواتین کے علاقائی ملبوسات میں جغرافیہ اور موسم کی وجہ سے بھی ثقافتی تنوع نظر آتا ہے، سعودی خواتین کے ملبوسات میں کڑھائی اور موتی کا کام بھی بعض علاقوں میں خصوصی موجود ہے، عمومی طور پر شاید عام لوگوں کو وہ لباس ایک جیسے نظر آئیں، لیکن ان ملبو ساتھ میں خاصا فرق واضح موجود ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں پہاڑ و میدانی صحرائی علاقوں میں بسنے والی خواتین کے ملبوسات الگ ہیں، اس کے مقابلے میں ساحلی پہاڑی علاقوں کے ملبوسات بالکل الگ ہیں، اور حجازی خواتین کے لباس بالکل منفرد ہے، جیسے میدانی سحری علاقوں میں مشرقی حصہ ہے، یہاں تیرے پاس بالکل الگ ہیں اور زیادہ تر یہ نجد اور قریبی خریدی ریاستیں جیسے قطر کویت اور امارات کے قریب ہیں، میں بہت زیادہ تنوع بھی موجود ہے۔ سعودی عرب کا شمالی خطہ جیسے حائل وغیرہ یا یمن کے قریب کے علاقوں میں خواتین کے لباس الگ ہیں۔
نجد کے اطراف میں اور حائل میں خواتین کا ایک معروف لباس "النشل یا السحاب" ہے، یہ پہننے والے کے قد سے زیادہ لمبائی میں بنایا جاتا ہے، اس لئے پہننے کے بعد اس کا نچلا حصہ زمین پر گھسیٹتا ہے، چونکہ یہ لباس زمین پر گھسیٹتا ہے، تو یہ گھر میں نہیں پہنا جاتا، بلکہ گھر سے باہر نکلنے پر پہنا جاتا ہے، اس کے بازو بہت پھیلے ہوتے ہیں، یہ لباس نجد و حائل کے علاقوں کی پہچان ہے، اس لباس میں شلوار استعمال ہوتی ہے، اور شلوار میں بھی بہت زیادہ کپڑا لگتا ہے یعنی بہت پھیلا ہوا ہوتا ہے، جیسے ہمارے ہاں بلوچی شلوار کہلاتی ہے۔
شمالی علاقوں میں ہی ایک اور لباس جسے جبہ اور زبون بھی کہتے ہیں، خواتین کا یہ لباس دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، یہ بھی زیادہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے پہنا جاتا ہے، ایک تو قمیض کی طرح پہن لیا جاتا ہے، پھر اس کے اوپر ایک اور حصہ جسے "مردونہ" کہتے ہیں اسے اوڑھا جاتا ہے، اس لباس کی لمبائی ٹانگوں تک ہی رہتی ہے، حائل میں ایک اور معروف لباس ہے جسے جسے محثول کہا جاتا ہے، اس کا ایک کمال یہ ہے کہ جس خاتون کے نام کا یہ بنایا جائے گا یہ اس سے دگنے لمبائی پر طویل بنایا جاتا ہے، پھر اس بلو ہاتھوں کمر کے گرد لپیٹ لیتی ہیں تاکہ بیلٹ کی طرح نظر آئے، اور اس کی اصل تکنیک اس بیلٹ کی طرح لپیٹنے میں ہی ہے جس میں اس کی طوالت کو اپنے قد کے اعتبار سے لپیٹ کر برابر کی جاتی ہے، زبون لباس کو باہر نکلنے کے لیے پہنا جاتا تھا، اس پر کسی قسم کی کوئی کڑھائی نہیں ہوتی یہ بالکل سادہ اور سیاہ رنگ کا ہوتا ہے، اس کے اندر زیر جامع کے طور پر جبہ پہن لیا جاتا ہے۔
نجد میں قمیض کی طرح ایک لباس جو طویل ہی ہوتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں، اسے کچھ مقامی لوگ کرتا بھی کہتے ہیں، اس میں ایک چادر یا اسکارف نما کپڑا سر پر باندھنے اور منہ ڈھانپنے کے لیے اوڑھا جاتا ہے۔ یہ مستطیل شکل کا اور کالے ریشم کا پسند کیا جاتا ہے، اس کی لمبائی دو میٹر اور چوڑھائی آدھا میٹر کے قریب ہوتی ہے، اسے سر پر رکھ کر پگڑی یا عمامے کی طرح اوڑھا جاتا ہے، اس کی دونوں کنارے کے پلو دھاری دار ہوتے ہیں۔
سعودی عرب کے جنوبی علاقوں میں بھی دو طرح کے لباس معروف ہیں، جس میں گھریلو لباس کو بصمہ کہتے ہیں، اور گھر سے باہر نکلنے یا سماجی تقریبات میں جانے کے لیے پہنے جانے والی لباس کو مشغول کہتے ہیں۔ یہاں پر جی سر پر باندھے ہیں منہ چھپانے کے لیے دو طرح کے دوپٹے استعمال ہوتے ہیں، ایک کا نام مندیل ہے، جو عموماََ وہ لڑکیاں استعمال کرتی ہیں جن کی شادی نہیں ہوئی ہوتی، اور شادی شدہ عورتوں کے اس دوپٹے کو "شیلہ" کہا جاتا ہے، مندیل سادہ ہوتا ہے اور شادی شدہ خواتین دستکاری پھول موتی ہے اور مختلف قسم کے رنگوں کا کپڑا استعمال کرتی ہیں جسے شیلا کہا جاتا ہے اس کئے اس کے تفریقی نام شیلہ ہے، لیکن چونکہ اس خطے میں سمندر نہیں ہے، اس لیے یہاں پر موتیوں کا استعمال بالکل مفقود ہے۔
جازان اور نجران میں خواتین کے ملبوسات بھی دیگر شہروں کے ملبوسات سے الگ و منفرد ہیں، جزان کا کلچر قریب یمن کے کلچر کے قریب ہے، یہاں کے لوگ پھولوں کا رنگوں کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، ان خطوں میں سردی بھی خوب رہتی ہے اس لیے یہاں پر موٹا کپڑا استعمال ہوتا ہے، ان کے ہاں خواتین کے ملبوسات کے نام "صدرہ" اور "الوزرہ" معروف ہیں، حجاز کی خواتین اپنے لباس میں ایک الگ پہچان رکھتی ہیں ان کے لباس میں کڑائی اور موتیوں کا کام کثرت سے ہوتا ہے، حجازی خواتین کا لباس تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، نجران اور جازان کی خواتین کا سر پر اوڑے جانے والا اس کاف کہہ لیں یا دوپٹہ اسے مقامی زبان میں مندیل کہتے ہیں یہ بھی اپنے رنگوں کی وجہ سے زیادہ معروف ہوتا ہے۔
وسط سعودی عرب کے بہت سارے علاقے نجد سے قصیم وغیرہ تک خواتین سر پر پہننے کے لئے جو دوپٹہ یا کپڑا استعمال کرتی ہیں، اسے "المخنق" کہا جاتا ہے، یہ ریشم اور شیفون کا ہوتا ہے، البتہ قدیم زمانوں میں بھی یہاں پر چہرے کے اطراف کا حصہ کھلا ہوتا تھا۔ مغربی سعودی عرب میں "المسدح" نامی کپڑا سر پر استعمال ہوتا تھا، یہ ڈھیلا ڈھالا اور اسے اس طرح پہنا جاتا تھا کہ چہرے کے نقوش ظاہر نہیں ہوتے تھے، یہ پانچ ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں پہننے میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں تقریبات میں دفہ الماھود، نامی عبایہ پہنا جاتا تھا۔ جو دلہن کے لیے خاص ہوتا تھا، اسے سیاہ ریشم کے دھاگوں سے بنایا جاتا ہے۔
شمالی علاقے کی خواتین سیاہ رنگ کی بڑی سی تکون شکل کی چادر استعمال کرتی تھیں جسے المقرونہ، کہا جاتا تھا۔ اب ذکر ہے مشرقی سعودی عرب کا جہاں میں خود رہتا ہوں، یہاں پر خواتین قدیم ثقافت میں چہرے پر جو دوپٹہ یا کپڑا استعمال کرتی ہیں اسے البطولہ کہتے تھے۔ یہ چہرے پر ڈالا جاتا تھا بس اس میں خواتین کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ عام طور پر بوڑھی خواتین یہ کپڑا استعمال کرتی تھیں۔ یہاں قطیف میں ایک قدیم طرز کا ہاشمی لباس خواری میں خاصا مقبول تھا، الحساء میں بھی الگ طرز کے قدیم لباس معروف تھے، بہرحال اب تو وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بہت تبدیلیاں بھی آئی ہیں، جس میں جدید مغربی لباس بھی ان کے لباس کا حصہ بن گیا، بلکہ جدید اور قدیم کا بہترین کمبینیشن بھی بن چکے ہیں۔ اب تو سعودی عرب میں فیشن انڈسٹری بھی بہت مقبول ہوگئی ہے خاص طور پر خواتین اس شعبے میں بہت زیادہ آگئی ہیں، جن کے اپنے مقامی قدیم طرز اور جدید طرز کے امتزاج کے ساتھ بہت سارے نئے ملبوسات کے فیشن شوز بھی ہو رہے ہیں، ان کے اپنے برانڈز بھی سامنے آرہے ہیں، اور پوری دنیا کے فیشن شوز میں یہ لباس متعارف بھی کروائے جا رہے ہیں اور خاصے مقبول بھی ہو رہے ہیں۔
اب تو ریاض میں خواتین کی یونیورسٹی "نورہ عبد الرحمن یونیورسٹی" میں روایتی عرب ملبوسات اور ٹیکسٹائل کا مطالعہ کیا جارہا ہے، وہاں کی پروفیسر لیلیٰ صالح البسام کو علمی تحقیق کے ذریعے سعودی عرب کے روایتی ملبوسات کو دستاویزی شکل بھی دے چکی ہیں جس پر انہیں جزیرہ نما عرب کی تاریخ پر تحقیق اور مطالعہ کے لیے شاہ سلمان پرائز آف ایکسیلینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
اس وقت پوری دنیا کے جتنے بھی بڑے فیشن شوز ہو رہے ہیں اس میں سعودی خواتین فیشن ڈیزائنر بھی موجود ہوتی ہیں اپنے ڈیزائن کردا ملبوسات بیک آپ کے لیے تعارف کے ساتھ، ویسے یہ روایتی لباس اب میری کائی گھروں میں یا مختلف ایونٹس وغیرہ میں پہنے جاتے ہیں سعودی خواتین عموماََمغربی لباس بھی پہنتی ہیں۔ ویسے تو سعودی خواتین 80 فیصد تقریبات کے علاوہ صرف جوگرز پہنتی ہیں۔ سینڈل یا دوسرے دیدہ زیب جوتے صرف تقریبات میں پہنتی ہیں۔ اب تو ان کے ہاں موجودہ عہد میں شادیوں میں بھی خواتین مغربی لباس ہی پہنتی ہیں۔