Sunday, 06 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Isma Tooba

Isma Tooba

اسماء طوبی

سنہء 1936 میں فلسطین کے "بنا القدس" ریڈیو سے جو پہلی نسوانی آواز سنائی دی تھی وہ آواز اسماء طوبی کی تھی، فلسطینی قومی جدوجہد سفر بہت طویل ہے، ترک سلطنت پھر برطانوی مینڈیٹ اور آج تک اسرائیل کے غاصبانہ قبضے تک جو ادب، معاشرت، معاشیات، آرٹ، میڈیا اور براہ راست جدوجہد کے شعبوں میں بہت سی علامتوں کے ساتھ جاری رہا، برطانوی غاصب اور اس کے بعد صیہونییوں کی کوششوں کے سامنے فلسطینی قومی تشخص کو برقرار رکھنے کے مقصد سے مرحومہ اسماء طوبی کا ستارہ ایک اہم ترین شخصیت کے طور پر چمکا۔

فلسطینی حقوق نسواں کی جدوجہد کی علامت اسماء طوبی کو فلسطینی میڈیا کی علمبردار اور شاعرہ سمجھا جاتا ہے، وہ سنہء 1905 میں ناصرت میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئیں، اور نہ صرف شہر میں ہی اپنی جگہ تعلیم حاصل، ان کا گھرانہ پڑھا لکھا اور شاعری سے تعلق رکھتا تھا، ان کے خاندان کی جدوجہد کی بھی تاریخ ہے، تعلیم اور شادی کے بعد اور اپنے شوہر الیاس نکولا خوری کے ساتھ اپنے شہر عکا منتقل ہوگئیں، ادب اور شاعری کی طرف جھکاؤ نوجوانی سے ہی ظاہر ہوا۔ اسماء کے والد چونکہ شاعر تھے، اس لیے ان کے ذریعے سے انھوں نے عربی شاعری کے مآخذ اور مصرعوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اور ان سے شاعری کی گہرائیوں اور لغت کے اصولوں کو سیکھا، اور عربی زبان پر اچھی طرح عبور حاصل کرنے کے لیے قرآن پاک کا مطالعہ کیا۔

سنہء 1920 کی دہائی میں اسماء طوبی نے فلسطین میں عرب تھیٹر کی نشاۃ ثانیہ کا ساتھ دیا، سنہء 1925 میں جب وہ صرف 20 سال کی تھیں، اس نے اپنا پہلا ڈرامہ "The Murder of the Tsar of Russia and His Family" شائع کیا، جو اس نے عکا میں پیش کیا۔ اس کی تھیٹر کے لئے تحریریں لکھنا جاری رہا، اور اس نے کئی تھیٹر ڈرامہ لکھے، جن میں"کرسمس ٹری کی اصل"، "صبر اور راحت"، "خواتین اور راز"، "اخلاص کے شہید" اور "جوا" ان میں سے زیادہ تر عوامی اور اسکول تھیٹر کے اسٹیجز پر پیش کیے گئے۔

اسماء طوبی سنہء 1929 تا سنہء 1948 تک عکا شہر میں خواتین کی یونین کے لئے سرگرم رہیں، براق انقلاب کے بعد، یروشلم میں"عرب خواتین ایسوسی ایشن" کی بنیاد رکھی گئی، اور اسی طرح کی کئی دوسری انجمنیں مختلف فلسطینی شہروں میں قائم ہوئیں، ان انجمنوں کو "عرب لیڈیز کمیٹیز" کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، اسماء طوبی کا ان تمام میں نمایاں کردار تھا۔ عکا شہر میں"عرب خواتین کمیٹی" کا قیام تھا جن کی ذمہ داریوں میں ہڑتال اور انقلاب (سنہء 1936 تا سنہء 1939) کے مراحل میں سماجی اور انسانی ہمدردی کے کام سے لے کر فیلڈ ورک تک کے معاملات تھے، اسماء طوبی نے عطیات جمع کرنے اور انقلابیوں کو رقم فراہم کرنے، نرسوں کی تربیت کی نگرانی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جن کی ذمہ داریوں میں فیلڈ ایمبولینس ٹیمیں تھیں، جن کا کام زخمیوں اور شہداء کے اہل خانہ کی عیادت کے علاوہ انہیں روٹی سے لے کر ادویات فراہم کرنا تھا۔

اسماء طوبی کا فیلڈ کام، ریڈیو اور پریس کے ذریعے اپنے تعلیمی کردار کو جاری رکھنے کے ساتھ ہی ہوا، وہ فلسطینی ریڈیو پر پہلی براڈکاسٹرز میں سے ایک تھیں، جو سنہء 1936 میں قائم ہوا تھا اور اسے "یہاں یروشلم ہے" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ خاص طور پر خواتین کے لیے اسماء نے ایک مذاکرہ تواتر سے "عرب ماں سے گفتگو" کے عنوان سے پیش کیا، اسماء کے بہت سے ریڈیو مذاکرے "فلسطینی ریڈیو، " "ہنا القدس، " اور "قریب مشرق" عرب ریڈیو پر نشر ہوئے، اسماء کے مشہور مذاکرے بیروت ریڈیو پر بھی نشر کیے گئے۔

سنہء 1938 میں قاہرہ میں مصری خواتین کی یونین کی صدر ھدی الشعراوی(ان پر میں نے چند سال پہلے تفصیلی مضمون لکھا تھا) کی دعوت پر منعقد ہونے والی "مشرقی خواتین کی کانفرنس" کے بعد فلسطین میں خواتین کی انجمنیں اور کمیٹیاں یونینوں میں تبدیل ہوگئیں۔ جب عکا میں فلسطینی خواتین کی یونین قائم ہوئی، اسماء طوبی پہلے مرحلے میں یونین کے سیکرٹریٹ کی ذمہ دار تھیں، پھر اس نے نقبہ تک اس کی صدارت سنبھالی، اس نے ینگ کرسچن ویمنز ایسوسی ایشن اور ینگ آرتھوڈوکس ویمن ایسوسی ایشن دونوں میں بھی کام کیا۔ پہلے تنظیم کی رکن اور دوسری تنظیم کی صدر رہیں۔

اسماء طوبی نے اپنی تخلیقات پچھلی صدی کے چالیس کی دہائی میں شہر عکا میں شائع کیں، اور شاید اس عرصے میں ان کی سب سے اہم کامیابی اس کا مخطوطہ تھا، جس کا عنوان تھا، "المرأة العربية في فلسطين" (فلسطین میں عرب خواتین)، جو خواتین کے کام اور جدوجہد کا مطالعہ ہے، اور اس نے پرنٹنگ پریس کو بھجوایا، مگر وہ سال نکبہ کا سال تھا، اور عکا شہر کو چھوڑنے والوں کے ساتھ وہ بھی عکا شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئی، یوں وہ اپنی کتاب چھوڑ کر چلی گئیں، وہ کتاب شائع نہ ہوسکی، وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیروت میں آباد ہوگئیں، بیروت میں آ کر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کی، لبنانی ریڈیو پر گفتگو نشر کی اور کئی رسالوں میں لکھا، جن میں"الحياة" "كل شيء"، ہفتہ وار "الاحد" میگزین، اور ماہانہ "دنيا المرأة" شامل رہے، جن کے سب سے نمایاں موضوعات فلسطین، خواتین اور انسانیت تھے۔

ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں، اس نے اپنی سب سے مشہور کتاب "عبير ومجد" کی تیاری پر کام کیا، جو سنہء 1966 میں شائع ہونے کے بعد سے، فلسطینی خواتین کے حوالے سے سب سے اہم حوالہ جات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں ان خواتین کے انٹرویوز بھی شامل تھے، جن کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کیا، یہ "زبانی تاریخ" کے میدان میں خواتین کا پہلا تجربہ تھا۔ جس میں مختلف ممالک میں مقیم خواتین سے خط و کتابت کی اور شہداء اور فوت ہونے والی خواتین کی سوانح عمری جمع کی۔ اسماء نے اپنی نظمیں سنہء 1972 میں اپنی کتاب "حبي الكبير" انگریزی ترجمہ (My Great Love) میں شائع کیں، اور بعد میں اپنی کتاب بھی شائع کی۔

اسماء طوبی کی معروف کتب یہ ہیں

1- مصرع قيصر روسيا وعائلته" (روس کے زار اور اس کے خاندان کا قتل)۔ "ڈرامہ"۔ عكا: سنہء 1925۔

2- "الفتاة وكيف أريدها" (مجموعة مقالات)۔ عكا: سنہء، سنہء 1943۔

3- "على مذبح التضحية"۔ عكا سنہء 1946۔

4- "أحاديث من القلب" ترجمہ "دل سے گفتگو" (مجموعة مقالات)۔ بيروت: مطبعة قلفاط، سنہء 1955۔

5- "عبير ومجد" (مجموعة مقالات)۔ بيروت: مطبعة قلفاط، سنہء 1966۔

6- "حبي الكبير" ترجمہ "میری عظیم محبت" (شاعری کا مجموعہ) بيروت: دار العودة، سنہء 1972۔

7- "نفحات عطر" (مجموعة مقالات عن احتفالات الشعوب وعاداتها)۔ بيروت: مؤسسة نوفل، سنہء 1975۔

اس کے علاوہ اسماء طوبی نے یہ تراجم بھی لکھے ہیں۔

1- الإبن الضال" (ہال کین کا انگریزی سے ترجمہ کردہ ناول))۔ عكا: سنہء 1946۔

2- "الدنيا حكايات" (انگریزی سے ترجمہ شدہ کہانیاں)۔ بيروت: مطبعة قلفاط۔

3- "في الطريق معه" (انگریزی سے مختصر ترجمہ)۔ بيروت: سنہء 1960۔

اسماء طوبی نے سنہء 1948 سے پہلے "فلسطین" اخبار میں خواتین کے صفحے کی تدوین کی، اور اس کے بعد بیروت کے کلّی اخبار اور سنڈے میگزین میں اسی صفحے کی ایڈیٹنگ بھی کی۔ فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ کے دور میں انہیں سنہء 1973 میں اعلیٰ لبنانی تمغہ "Constantine the Great" سے نوازا گیا۔ اسے حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی خواتین میں سے ایک تھیں۔ اسماء طوبی کا انتقال سنہء 1983 میں ناصرت میں ہوا۔ انہیں سنہء 1990 میں یروشلم میڈل برائے ثقافت اور فنون سے نوازا گیا۔ اسماء طوبی کا نام فلسطین کی مزاحمتی جدو جہد میں فلسطین کی تاریخ کا نمایاں حصہ ہے۔

نوٹ: اس مضمون کے لکھنے میں درج ذیل حوالہ جات کی مدد شامل ہے۔

1- عرب ویکیپیڈیا۔

2- ویب سائٹ: أعلام فلسطين: من القرن 'الأول حتى الخامس عشر، هجري/ من القرن 'السابع حتى العشرين، ميلادي"۔

3- مترجمات من فلسطين، فاطمہ خلیل

4- فلسطينيات: وجوه نسائية فلسطينية معاصرة

5- معجم أعلام فلسطين في العلوم والفنون والآداب"۔

Check Also

Muashi Moqa Ya Siasi Dhoka?

By Asif Ali Yaqubi