Hijaz Railway Aur Madina Munawara Ka Ajaib Khana (2)
حجاز ریلوے اور مدینہ منورہ کا عجائب خانہ (2)
حجاز ریلوے، اس عمارت کے عقب میں آج بھی ریل کی پٹری، ڈبے اور انجن سمیت عثمانیوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ حجاز ریلوے کی مدینہ منورہ سے دمشق تک جاتی ریلوے لائن کہیں کچی ریتلی زمین پر بچھی ہوئی اور کہیں پہاڑی اُتار چڑھائو میں سے گزرتی ہے۔ لیکن ریگستانی اور پہاڑی دونوں راستوں پرپھیلی یہ ریلوے لائن ہموار اور ستواں ہے۔ گردوپیش ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔
کہیں کسی چھوٹی وادی سے گزرتی اور کہیں خودرو درختوں سے گھرا نخلستان پار کرتی تو کہیں کسی غیر آباد علاقے اور وسیع ویرانے کو عبور کرتی العلا تک پہنچتی ہے۔ اس عمارت کے عقب کی طرف ہم نے ریل کی پٹری بھی دیکھی جو آج بھی موجود ہے۔ اور وہاں سیاہ رنگ کا ایک ڈبہ بھی کھڑا ہے۔ (جس کی تصاویر بھی لیں )، لیکن یہاں جالیاں لگا کر قریب جانے کی ممانعت رکھی گئی ہے۔
حجاز ریلوے قریب ۱۲۰ برس قبل اسلامی ریاستوں کا سب سے بڑا منصوبہ تھا، جو عہد خلافت عثمانی میں سلطان عبد الحمید دوم کے حکم پر تعمیر ہوا تھا، جو دمشق کو مدینہ منورہ سے جوڑتا تھا، مسجد نبوی ﷺ سے ۱۰۵ کلو میٹر دور اس منصوبے کے لئے اس وقت پوری مسلم امہ نے عطیات کئے تھے اور سب سے زیادہ عطیات مسلمانان ہند نے پیش کئے۔
جب برصغیر کا بٹوارہ نہ ہوا تھا۔ حجاز ریلوے کا منصوبہ تاریخی تھا، اور ایک عظیم الشان کارنامہ تھا۔ یہ مسلم امت کو درپیش نازک ترین تاریخی دور میں روبہ عمل لایا گیا تھا۔ اب یہ سب تو ماضی کا افسانہ بن چکا ہے۔ اس زمانے میں دمشق سے مدینہ منورہ کا سفر عموما حجاج اونٹوں پر کرتے تھے، اس سفر میں عموما ۲ ماہ لگ جاتے تھے، خاص طور پر موسم حج میں حجاج کا کارواں بہت مسائل اور کٹھن مراحل سے گزر کر حجازِ مقدس جاتے تھے۔
اس وقت عثمانی سلطان عبدالمجید نے بلادِ مقدسہ کو دمشق سے ملانے کے لیے حجاز ریلوے پر غور و خوض شروع کیا۔ جون سنہء ۱۹۰۱ میں جنوبی اردن میں درعا سے، اس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ حجاز ریلوے لائن انجینئرنگ کا ایک مثالی شاہکار تھا۔ اپنے طویل پھیلائو میں وادیاں، پہاڑ، برساتی دریا، ندی نالے، دشت صحرا اتار چڑھائو، گھاٹیاں اور کھائیاں، ان سب میں تواتر و تسلسل کے ساتھ ریلوے لائن بچھانا قابلِ قدر کارنامہ ہے۔
ٹرمینل کی عمارت کا نقشہ ایک بڑے مقدس شہر کے ریلوے اسٹیشن کے طور پر بہت خوبصورتی کے ساتھ بنایا گیا۔ حجاز ریلوے کے باضابطہ افتتاح ستمبر سنہء ۱۹۰۸ تک اس کی صرف ایک منزل تیار ہوسکی تھی۔ راستے میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے ۷۶ ریلوے اسٹیشن بنائے گئے۔ ۲۸ اگست سنہء ۱۹۰۸ کو حجاز ریلوے مدینہ منورہ پہنچی۔
سلطان عثمانی خلیفہ عبدالحمید دوئم اور صدر اعظم نے متعدد ملاقاتیں کرکے سلطنت عثمانیہ کی افواج کے کمانڈر کاظم باشا کو حجاز ریلوے منصوبہ کی نگرانی کے فرائض تفویض کئے تھے۔ اس پر عملدآمد کا آغاز سنہء ۱۹۰۰ میں کیا گیا تھا اور یکم ستمبر سنہء 1۱۹۰۸ اختتام عمل میں آیا۔ ۹ برس تک حجاز ریلوے کام کرتی رہی اور پہلی عالمی جنگ کے دوران بند ہوگئی۔
مدینہ منورہ میں حجاز ریلوے اسٹیشن کی عمارت ایسی جگہ بنی ہوئی ہے۔ جس کا سیرت مبارکہ سے گہرا تعلق ہے یہ وہ جگہ ہے۔ جہاں پیغمبر اسلام بدر جانے والے لشکر کا معائنہ کیا تھا اور اس کے بعد سنہء 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تھا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں مسجد السقیا واقع ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے فن تعمیر کی آئینہ دار ہے۔ دمشق سے مدینہ تک ریلوے لائن کی لمبائی ۱۳۳۰ کلومیٹر تھی۔
حجاز ریلوے کے آغاز سے لے کر سنہء ۱۹۱۴ (۱۳۳۲ھ) میں پہلی جنگِ عظیم تک اس پر ۴۵ لاکھ عثمانی گولڈن پونڈ کی خطیر رقم صرف ہوئی۔ پہلی عالمی جنگ نے سنہء ۱۹۱۴ میں یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شمولیت سے مکہ تک توسیع دینے کے منصوبے مؤخر کرنے پڑے، اس کی ایک بڑی وجہ اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کی حالتِ زار۔
سلطان عبدالحمید ثانی اور "انجمنِ جوانِ ترک" شریف مکہ حسین بن علی، شریف مکہ اور عثمانی ترکوں میں باہمی خلفشار کے عوامل بھی رہے۔ اگست سنہء ۱۹۱۴ میں برطانیہ کے لارڈ کچز کو وزیرِجنگ بنا دیا گیا۔ یہی لارڈ کچز خلافت عثمانیہ کی تباہی اور برطانوی عمل داری کو روبہ عمل لانے کا مرکزی کردار بنا تھا۔ اس کا ابتدائی آغاز مقام حجاز سے کیا گیا تھا۔
جہاں پوری اسلامی دنیا کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے قرعہ فال حسین بن علی شریف مکہ کے نام نکلا، لارڈ کچز نے شریف مکہ کے نام اپنے پیغام میں عندیہ دیا کہ اب برطانیہ عثمانی ترکوں کے بجائے عربوں کو اسلام کے محافظ کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے عثمانی اقتدار کے خاتمے کے بعد حسین بن علی کو پورے بلادِعرب کا بادشاہ بنانے کے لالچ کا وعدہ کیا۔
۹ مئی سنہء ۱۹۱۶ میں برطانیہ اور فرانس نے روس کے ساتھ مل کر ایک خفیہ کنونشن میں طے کیا کہ سلطنت عثمانہ کے حصے بخرے کرکے اس کا شیرازہ منتشر کر دیا جائے۔ اسی وعدے کے تحت ۱۰ جون سنہء ۱۹۱۶ کو حسین بن علی نے مکہ، طائف، جدہ اور حجاز کے تمام علاقوں میں بغاوت کا اعلان کردیا۔ اور ۱۶ نومبر سنہء ۱۹۱۶ کو حسین بن علی نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا۔
اس کام کے لئے تکنیکی طور پر حجاز میں موجود برطانوی ٹی۔ ای لارنس المعروف لارنس آف عربیہ کی مدد سے ملی، اس نے حسین بن علی کو باور کروایا کہ ریلوے لائن تباہ کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ سے انہیں سونا، توپیں، گولہ بارود اور چند انگریز مشیروں کو منگوایا۔ آخر کار ریلوے لائن کو پھر باقاعدہ انہی منصوبہ بندیوں کے تحت ڈائنا مائیٹ سے مختلف مقامات سےجگہ جگہ سے اڑا کر ختم کردیا گیا۔
اس وقت ترکی کے اندر بھی سازشوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہاں کمال پاشا اقتدار پر قابض ہوگیا۔ حجاز ریلوے کی تباہی کے ساتھ ہی ۲۴ جولائی سنہء ۱۹۲۴ کو ترکی کی خلافت بھی ختم ہو گئی۔ سعودی عرب کا محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ اس تاریخی مقام کو اندرون اور بیرون مملکت سے مدینہ منورہ آنے والے زائرین کا مرکز بنانے کے لئے خاصی غیر معمولی محنت کر رہا ہے۔