Heroes Of Makkah
ہیروز آف مکہ
یہ ایک جملہ کل کے مقامی اخبارات میں دیکھا۔
Hero's of Makkah
یہ یہاں سعودی عرب کا ایک عمومی ستائشی رویہ ہے، میں نے اپنے قیام کے ان برسوں میں یہاں تسلسل کے ساتھ ہمیشہ ایسے ستائشی روئیے اور حکومتی سول اعزاز عام شہریوں اور خصوصاََ غیر ملک سے آنے والے مختلف شعبوں (حتٰی کہ معمولی سمجھے جانے والے شعبوں میں بھی) میں کام کرنے والے لوگوں کو ملتے دیکھے ہیں، یہاں فوجی ایوارڈ سے زیادہ اعلیٰ ایوارڈ پولیس کے افراد کو ملتے ہیں، طب کے شعبے میں ملتے ہیں، انسانی جان بچانے والوں یا انسانی جان بچانے کی کوشش کرنے والوں کو ملتے پیں، کسی کی مدد کرنے والوں کو ملتے ہیں۔
پشاور کے نوجوان فرمان علی نے قریب دس برس پہلے جدہ میں آئے سیلاب میں چند مقامی لوگوں کی جان بچاتے سیلابی ریلے میں اپنی جان پر کھیل کر چودہ لوگوں کی جان بچانے والے فرمان علی کیلئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سنہء 2018 میں پشاور میں ہیلتھ سنٹر کا نام فرمان علی کے نام پر بنایا، اس کو سعودی عرب کا سب سے بڑا اعزاز King Abdulaziz Medal of the First order سے نوازا گیا۔
اس کے پورے خاندان کو شاہی ضیافت دی گئی، سعودی عرب کی شہریت اور جائیداد دی۔ سنہء 2018 میں ہی شیول آپریٹر پاکستانی نوجوان شکیل احمد نے جان ہتھیلی پر رکھ کر سعودی شہری عبدالرحمان محمد العیسیٰ کو سیلاب کے ریلے میں بہتے ہوئے ڈوبنے سے بچایا تو اسے بھی سول اعزاز دیا گیا، پچھلے برس بھی پنجاب کے ایک مزدور نے ایک سعودی کی جان بچانے پر اعلیٰ سول اعزاز اپنے نام لیا۔
سعودی عرب میں کرونا وائرس کی ہنگامی صورت میں پیرا میڈیکل اسٹاف کا پہلا انتقال کرنے والا شخص پاکستانی ڈاکٹر بنا، جسے سعودی ریاست نے اپنا ہیرو تسلیم کیا، نہ صرف یہ کہ اسے ہیرو تسلیم کیا، اس کی پوری فیملی کو سعودی شہریت دی گئی، تاعمر اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری لی گئی، یہ فرق پیرا میڈیکل اسٹاف میں عہدوں کی مناسبت سے نہیں بلکہ نرس ہو یا ڈاکٹر بلکہ صفائی کا عملہ اس اعزاز میں سب مستحق ٹہرتے ہیں۔
آئے دن کوئی نرس کسی مریض کے ساتھ اچھا رویہ دکھانے پر، ہسپتال میں وہیل چئیر آپریٹرز کی مستعدی، روڈ پر چلتے پولیس والا کسی دکان، رہائش، سڑک، فیکٹری کہیں پر بھی کوئی انسانی جان کی اہمیت یا خدمت میں دیکھا گیا ہو، اسے ایسے ایوارڈ ملتے ہیں۔ سعودی عرب میں خصوصاََ میڈیکل پیرا اسٹاف اور صفائی کے عملے کی کسی انسانی خدمت کو فراموش نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں اس حوالے سے خاصی افسوسناک صورتحال ہے، مجھے عمران خان سے شدید سیاسی اختلاف کے باوجود سیالکوٹ میں فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن ملازم پر جھوٹے توہین مذہب کے الزام پر گروہ کی صورت حملہ آوروں کے سامنے ایک نوجوان کو اس سری لنکن شخص کی جان بچانے کی کوشش کو جب عمران خان نے پہلی بار سرکاری سطح پر ستائش کی تھی، تب بہت خوشی ہوئی تھی کہ چلیں پاکستان میں پہلی بار سرکاری سطح پر ایسا اقدام ان جنونیوں کے خلاف کیا گیا جو مذہب کے نام پر جان لینے کے لئے تیار گروہ پیدا کرتے ہیں۔
ہمیں ایسے ہر روئیے کو اپنا عمومی رویہ بنانا ہوگا، معاشرے میں انسانی جان لینے والے نہیں بلکہ انسانی جان بچانے والے ہیروز تسلیم کئے جائیں، ہمیں پہاڑوں سے آنے والے شیر شاہ سوری یا اس کے ییروکاروں کی نہیں، بلکہ انسانی جان کی حفاظت اور تکریم کرنے والے عام لوگوں کو اعزاز دینے کی ضرورت ہے، ہمیں ہمارے سیوریج میں اتر کر گندگی صاف کرتے وقت اپنی جان دینے والے، بجلی کے کھمبے پر کام کرتے وقت مرنے والے کو اپنا ہیرو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمیں خدمت کرنے والے اساتذہ و پیرامیڈیکل اسٹاف کو خدمت کے عوض تمغات دینے ہونگے۔
نوٹ: یہ تصویر مکہ مکرمہ کے خدام کی تصویر ہے، جسے سعودی عرب جیسا معاشی طاقتور ملک اخبارات میں اعلانیہ اپنا ہیروز تسلیم کرتا ہے۔ مزید مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے یہ تمام ہیروز تیسری دنیا کے غریب پردیسی مزدور ہیں۔