Hamas Ki Ikhlaqi Fatah
حماس کی اخلاقی فتح

عامر کاکا زئی نے معاہدے کے بعد میری کل رات کی تحریر پر کمنٹ لکھا کہ حماس اور ایران کو یہ سب کرکے کیا ملا؟ میں نے جواب میں لکھا کہ ان کو "اخلاقی فتح" ملی ہے اور ہماری اخلاقی فتح کی تعریف یہ ہے۔
ویسے تو جنگوں کا خاتمہ خود ایک خوشی کا لمحہ ہوتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا سہرا کون لے گا، یا اسباب کیا رہے اور اس جنگ میں کون کون مجرمین ہیں اور کس بنیاد پر جنگ کی ابتداء ہوئی۔ غزہ میں ان دو برسوں کے دوران کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں بے گناہ شہری نہیں مارے گئے، حقیقتا غزہ کی موجودہ تصویر بہت تاریک ہے، وہاں ہولناک انسانی اموات کا اک ایسا سلسلہ رہا اور یہ تباہی ماضی میں فلسطین کی تمام جنگوں میں سب سے زیادہ بدترین رہی ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اب بندوقوں کے خاموش ہو جانے کے بعد اس میں شامل گروہ کچھ اصطلاحات پر مبنی پروپیگنڈے کا سہارا لیں گے اور اک خاص اصطلاح "اخلاقی فتح" جس کا حقیقت یا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، جب فریقین ہر ہاری ہوئی جنگ کے بعد زخمی معاشرے کے ساتھ مفاہمت کرنے اور آگے بڑھنے کے بجائے، شکستوں کی لغویات کو اس اصطلاح میں پکارنے لگتے ہیں اور انسانی جان و املاک اور نسلوں کو دی جانی والی اذیت پر جو کچھ ہوا اس کے لیے عقلی اور اخلاقی جواز پیش کرتے ہیں، جنگ میں جانے کے فیصلے کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور ہر فریق اپنے تئیں خود کو تاریخ کے فاتح کے طور پر دوبارہ لکھواتا ہے اور مزید نقصان اور جنگوں کے لئے وعدے کئے جاتے ہیں۔
ماضی زیادہ دور نہیں ہے، سنہء 2006 میں بھی حماس اور حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں ہونی والی شکست کو اس وقت "الہی فتح" کا نام دیا تھا، حالانکہ اس وقت بھی اس جنگ کا اختتام 1,600 لبنانیوں کی ہلاکت اور فلسطینی شہر غزہ کی تباہی پر ہوا۔ آج غزہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، جس میں 60,000 سے زیادہ افراد مارے گئے، غزہ کی پٹی کے شہروں کی تباہی اور حماس اپنے ہتھیار پھینک کر اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔ آج مخصوصا گروہ اس سب انسانی اموات اور نقصانات کو اخلاقی فتح کہتے ہیں۔ عراق بھی اپنی ناکام جنگوں کو "تمام لڑائیوں کی ماں" کہتا تھا۔ لیکن صدام نے کم از کم زہر کا پیالہ پیا اور فتح کا دعویٰ کرنے کی کوشش کیے بغیر سرحد پر صفوان خیمے میں ہتھیار ڈالنے کو قبول کر لیا تھا، یہ تاریخ ہے کہ دنیا کی ہر قدیم جنگی شکست کے بعد اپنے احتساب کے بجائے جنگی گروہ ہمیشہ اپنے لئے ایسی ہی اخلاقی فتوحات کے جواز پیدا کرتے رہے ہیں، ہمیشہ ایسے ہی جواز دہرائے جاتے ہیں، حماس کے 7 اکتوبر کے ایڈونچر کے بعد یہ دعوہ کہ ان کے پاس اسرائیلی حملے کے بارے میں معلومات تھیں۔ یہ فقط مبالغہ آرائیوں پر مبنی تھا۔
ہاں یہ ضرور ہوا کہ اتنی شدید انسانی اموات اور ہولناکیوں کے بعد یہ مسئلہ دوبارہ منظر عام پر آ گیا ہے، دنیا بھر خصوصا مغربی ممالک جہاں یہودیوں کے لئے ماضی میں جو نرم رویہ موجود تھا ان ممالک کے چوک اور محلے مظاہرین سے بھرے ہوئے ہیں، آج مغربی میڈیا اسرائیل پر تنقید کر رہا ہے، دنیا بھر کے انسانی کارکنان میں خصوصا اس پر توجہ دی اور اس کا بہت کریڈٹ ان کو جاتا ہے حتی کہ، چند یہودیوں نے بھی احتجاج میں حصہ لیا۔ لیکن جب آپ ان بے مقصد جنگجو مفاد پرست ٹولے سے یہ پوچھیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب دنیا کے چھوٹے، عارضی فائدے ہیں جو جنگ سے لوگوں کو پہنچنے والے نقصان اور اس سیاسی نقصان کے مقابلے میں ہلکے ہیں جنہوں نے اسرائیل کی خواہشات کے حق میں نقشہ بدل دیا۔ اب ان کے چاہنے والے اپنی شرمندگیاں اور اپنے جرم کو "اخلاقی فتح" کے دعوے جیسے جملے سے جسٹیفائی کرتے ہیں، جو اکثر عوام پر شکست کے اثرات کو کم کرنے اور بعد میں وہی غلطیاں کرتے رہنے کے لیے دہرایا جاتا ہے، جیسے عادی مجرم اکثر کرتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ آج کا یہ معاہدہ فلسطین کے حق میں بہت کمزور ہے، مگر حماس نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا، اب شائد کسی کو ان لاکھوں لوگوں سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے جو ان غلط فیصلوں کی وجہ سے نقصان اٹھا چکے ہیں۔ لیکن کم از کم، ہمیں شکستوں کو خوبصورت بنانا اور ان کا جشن منانا چھوڑ دینا چاہیے۔

