Garmi
گرمی
درجہ حرارت صرف 48 ہے، حالانکہ ابھی گرمی کی ابتداء ہے، گاڑی میں اے سی کو موجودگی میں تو کوئی مسلہ نہیں ہوتا، مشکل جب ہے کہ جب آپ اتفاق سے کسی کام سے گھر چلے جائیں تو بیٹی اس وقت ساتھ باہر جانے کی ضد کرتی ہے، جتنا سمجھا لو، کہ ہم شام میں جائیں گے ابھی باہر بہت شدید گرمی ہے۔ اور گاڑی بھی بہت گرم محسوس ہوتی ہے، مگر جب وہ رونے لگے تو مجبورا کچھ دیر کے لئے لے جانا ہی پڑتا ہے۔
باقی یہاں آفس اور فیلڈ کی جاب کا یہ مسلہ جو بہت آسان لگتا ہے، اتنا آسان نہیں ہے، جب آپ کسی کمپنی میں جائیں، گاڑی سیکورٹی سے نکل کر پارکنگ میں لگا کر متعلقہ ڈیپارٹمنٹ تک اس گرمی میں تین سو سے چار سو میٹر پیدل ہی چلنا پڑتا ہے، پھر واپسی پر گاڑی کا اسٹیرنگ اور سیٹ جلتے ہوئے توے کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ مگر ہم سے زیادہ مشقت وہ مزدور کرتے ہیں۔
جو یہاں لوڈنگ کرتے ہیں، پوری دنیا سے زیادہ تر ایسی نوکریاں پاکستانی بنگالی، انڈیں و نیپالی و فلپائنی کرتے ہیں، جیسے یہ مزدور بھائی جو آپ کو تصویر میں پاکستانی نظر آ رہا ہو گا، جو شاول فورک لفٹر یا اسی طرح کی دوسری گاڑیاں چلاتے ہیں، اس میں اے سی کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ چڑھے سورج میں ایسی محنت کرتے ہیں، جن کی اس پردیس میں مزدوری کر کے ہڈیاں گل جاتی ہیں۔
پھر بغیر کسی امیگریشن یا شہریت کے ایک دن یہ لوگ اپنے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں، یہی وہ اوورسیز ہیں۔ سعودی عرب کے جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ زر مبادلہ پاکستان کو بھیجتے ہیں، ورنہ یورپ و امریکا میں جانے والے امیگریشن و شہریت بھی لے لیتے ہیں، (ان سے کوئی گلہ نہیں) مگر اوورسیز میں اصل کمانے والے اور پاکستان کو ترسیل زر دینے والے خلیجی ممالک کے مزدور ہیں۔
جن کے لئے کوئی عارف انیس بھی چندے جمع کر کے کبھی کوئی پروگرام نہیں کرتا، بلکہ ان ممالک میں سفارت خانے بھی کبھی ان کے مسائل کا کوئی تدارک نہیں کرتے، صرف سنہء 2022 میں ہی پاکستان سے سب سے زیادہ ویزہ پر غیر ممالک سفر کرنے والوں میں 57٪ نے سعودی عرب کا ہی رخ کیا ہے، اور جن کی کثیر تعداد مزدوری ہی کرتی ہے۔
ان اوورسیز کے نام پر ناچنے والے ہمارے سارے سیاستدان انتہائی گھٹیا اور مکروہ کردار کے لوگ ہیں، جنہیں ان کے مسائل سے کبھی کوئی غرض نہیں رہا، ہر شخص اپنی باری پر ملک کو برباد کرتا ہے۔ اور دوسرے مخالف سیاستدانوں کا نام لیتا ہے۔ مگر عملی طور پر انہوں نے کبھی پاکستان کو ان مزدوروں کے لئے آسان نہیں کیا۔ میں اسوقت سگنل پر کھڑا ہوں، میری گاڑی میں باوجود اے سی چلنے کے ماتھے پر پسینہ موجود ہے۔
ساتھ کی سیٹ پر ٹھنڈے پانی کو بوتل رکھی ہے، صرف چند میٹر پرے یہ ایک بزرگ پاکستانی ہے، جس کے پاس اگر پانی بھی ہوا تو گرم ہو گا، اتنی گرمی میں اس پاکستانی کی عمر دیکھیں اور اس کی محنت اور موسم دیکھ لیں، یہ صرف اس عمر میں پردیس اپنی فیملی کی روٹی اور بجلی و گیس و پانی کے بل کے لئے یہاں موجود ہے۔ کیونکہ ریاست پاکستان کے پاس اعلٰی افسران کے لئے پینشن و اسائشات موجود ہیں۔ لیکن ان کے لئے نہیں کچھ بھی نہیں ہے۔
سوچیں کہ ہمارے ملک کے حکمران اور عسکری مقتدرہ کتنے بے شرم ہیں۔