Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Fatima Paiman

Fatima Paiman

فاطمہ پیمان

فاطمہ پیمان ہیں، نسلا افغان ہیں اور 90 کی دہائی میں اس کے والد افغانستان سے بطور مہاجر پناہ گزین آسٹریلیا میں پہنچے۔ اس کے والد افغانستان میں نہیں رہنا چاہتے تھے، کیونکہ افغانستان میں اس عہد میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل تھے، وہ وہاں کے نظام سے بھی خوش نہیں تھے۔ معاشی پریشانیوں کے ساتھ جبر کے قانون کا مسلط کردہ خوف، اور خواتین کے لئے سخت ترین قوانین انہیں بالکل پسند نہیں تھے۔

انہوں نے اپنی بیٹی کو آسٹریلیا میں پالا، وہ آسٹریلیا میں اتنے پیسے کمانے لگے جس کا وہ افغانستان میں کمانے کا سوچ نہیں سکتے تھے اتنے پیسے کمانے کے بعد وہ اپنے خاندان کو پالنے کے علاوہ بھی رقم بچا لیتے ہیں اور اپنے کئی رشتہ داروں کو اپنے آبائی ملک میں بھیج سکتے تھے۔ وہ اس ملک میں موجود سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے تھے، جن کا تصور انہوں نے افغانستان میں نہیں کیا تھا۔

ان کی بیٹی فاطمہ پیمان کو تعلیم کا شوق تھا، جس کے مواقع انہیں آسٹریلیا میں ملے، فاطمہ پیمان آسٹریلین اسلامک کالج سے بطور ہیڈ گرل گریجویٹ بنیں، آج فاطمہ پیمان افغانستان کی ان لڑکیوں میں سے نہیں جنہیں وہاں کی موجودہ حکومت کے دعوی شریعت کے قانون کی وجہ سے وہاں ہائی اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ وہ آسٹریلیا کے کالج سے گریجویٹ ہیں۔

اس وقت وہ ایک سوشل ایکٹوسٹ ہیں آسٹریلیا میں پارلیمان رک رسائی رکھتی ہیں، مگر مزے کی بات ہے کہ وہ اس وقت آسٹریلیا کے نظام میں تبدیلی کے لئے لڑ رہی ہیں، جس ملک نے انہیں پناہ دی، روزگار اور تعلیم دی ہے، وہ آسٹریلیا میں بھی شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہیں، وہ اسی نظام کی بات کررہی ہیں، جس نظرئیے کی وجہ سے اس کے والد افغانستان سے یہاں پناہ لینے آئے تھے۔

آج فاطمہ پیمان وہی نظریہ رکھتی ہیں، جس کے خلاف اس کے والد افغانستان سے بھاگے تھے، وہ مشرق وسطیٰ میں عام لباس پہننے پر تشدد کا سامنا کرنے والی لڑکیوں کی وکیل نہیں بننا چاہتی، بلکہ آسٹریلیا میں مکمل حجاب کو معمول پر لانے کی وکالت کررہی ہیں۔ فاطمہ پیمان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ اسٹریلیا کے موجودہ نظام کے خلاف کیوں لڑ رہی ہیں، جس نظام نے آپ کو وہ سب کچھ دیا، جو آپ چاہتی تھیں وہ آپ کا ملک بھی آپ کو نہیں دے رہا تھا۔ آپ کو کیسا لگتا ہے کہ آپ اس ملک کے نظام کے خلاف لڑ رہی ہیں جس نے آپ کو وہ سب کچھ دیا ہے؟ آپ چاہتی ہیں کہ آپ آسٹریلیا کو وہ ملک بنا دیں جس سے آپ خود بھاگ کر آئی ہیں؟

یہ ایک اہم سوال ہے، ہم جن ممالک میں جاتے ہیں ہم وہاں کا نظام اپنی مرضی سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر ہم اپنے ممالک میں اس نظام کو قبول نہیں کرتے؟ جو ہم مانگ رہے ہوتے ہیں؟

ایسا کیوں؟

جیسے فاطمہ پیمان آج بھی افغانستان نہیں جانا چاہتی، مگر آسٹریلیا کو افغانستان بنانا چاہتی ہیں۔۔ ایسی ہی مثال ہمارے کئی پاکستانیوں کی ہے وہ جس ملک میں روزگار ڈھونڈنے جاتے ہیں وہاں رہنا چاہتے ہیں، اس ملک کے قوانین و وسائل سے مستفید ہوتے ہیں مگر ان کے نظام پر تنقید کرتے ہیں؟ ایسا کیوں؟

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry