Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Fatima Al Bernawi

Fatima Al Bernawi

فاطمہ البرناوی

فاطمہ محمد علی برناوی فلسطینی عصری انقلاب کی ایک ایسی شخصیت ہے، جسے اس پورے انقلابی عمل میں کئی اعزاز حاصل رہے ہیں، یہ سنہء 1965 سے شروع ہونے والے (تا حال جاری) عصری فلسطینی انقلاب کے آغاز کے بعد مسلح گوریلا کارروائی میں شامل ہونے والی پہلی فلسطینی خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ عصری فلسطینی انقلاب کی تاریخ میں حقوق نسواں کی تحریک کے ریکارڈ میں باضابطہ طور پر درج ہونے والی پہلی قیدی بھی ہیں۔

انیسویں صدی میں افریقی ممالک سے آنے والے حجاج اکثر حج کے بعد بیت المقدس کا سفر کرتے تھے، اور بیت المقدس کے قیام کے دوران اکثر کئی افریقی خاندانی وہیں پر آباد ہو جاتے تھے، ایسے ہی کئی آباد خاندانوں کی وجہ سے وہاں ایسے محلے بھی بن گئے جن میں مختلف افریقی ممالک سے آنے والے خاندان رہتے تھے، انہی خاندانوں میں سے محمد علی برناوی جن کا تعلق نائیجریا سے تھا، جنہوں نے مقامی فلسطینی اردنی خاتون سے شادی کی، ان کے ہاں فاطمہ البرناوی کی ولادت ہوئی تھیں، فاطمہ کی پیدائش سنہء 1939 میں یروشلم شہر میں ہوئی، فاطمہ برناوی کے والدین بھی برطانوی مینڈیث کے دور میں مزاحمتی تحریک سے جڑے رہے تھے۔

اپنے بچپن میں ہی فاطمہ اپنے خاندان کے ساتھ سنہء 1948 میں نکبہ کے بعد اردن کی ہاشمی سلطنت کے فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہوئیں۔ اس وقت فاطمہ کی عمر فقط نو سال تھی، پھر اپنے خاندان کے ساتھ یروشلم واپس آئیں، اور نرسنگ کے پیشے کی تعلیم حاصل کی۔

فاطمہ برناوی نے اپنے پیشے کو فلسطینی انقلاب کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا، اس کے بعد فاطمہ نے سعودی عرب کا سفر کیا اور نرسنگ کے پیشے میں دو سال کام کیا، جہاں فاطمہ نے سعودی عرب کی آئل کمپنی آرامکو میں نرس پریکٹیشنر کے طور پر کام کیا، لیکن فلسطینی شہریت کے باوجود اس کی جلد کے رنگ کی وجہ سے اسے مریضوں کو انجیکشن لگانے کی اجازت نہیں تھی، (یہ استحصالی قوانین اس وقت امریکی قوانین کے مطابق تھے)، یہاں دو سال نوکری کے بعد وہ اپنے وطن واپس آگئیں، اور واپسی پر سنہء 1958 میں قلقیلیہ کے UNRWA ہسپتال کی پہلی مقامی فلسطینی نرسوں میں سے ایک تھیں، اس ہسپتال میں یہ سنہء 1967 کی جنگ تک رہیں۔ لیکن اس دوران وہ سنہء فلسطینی قومی ازادی کی تاریخ الفتوں میں شامل ہوئی، فاطمہ برناوی اس تحریک (الفتح) میں شامل ہونے والی پہلی خواتین میں سے ایک تھیں، جس کی بنیاد یکم جنوری 1965 کو رکھی گئی تھی۔

اکتوبر سنہء 1967 میں اسے یروشلم کے صہیون سینما میں دھماکہ خیز مواد رکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی، فاطمہ فلسطینی انقلاب کی پہلی خاتون قیدی تھیں، یہ ان چونتیس فلسطینی خواتین میں سے ہیں جنہیں"فلسطین کی بیٹیاں" کہا جاتا ہے، اور فاطمہ برناوی ان چار خواتین میں سے بھی ایک ہیں، جنہوں نے فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے ابتدائی دنوں می جنگجو کے بطور شمولیت اختیار کی تھی، ان میں سے باقی تین لیلیٰ خالد، عائشہ عودہ، اور رسمیہ عودیہ ہیں۔ (انشاء اللہ وقت ملا تو ان پر بھی تفصیلی مضمون لکھونگا)۔

فاطمہ کو عمر قید کی سزا تو دی گئی تھی، لیہن قیدیوں کے تبادلے میں بالآخر دس سال بعد فاطمہ کو سنہء 1977 میں رہائی مل گئی، لیکن اسے آزادی کے بعد اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی وجہ سے سادات کے یروشلم کے دورے سے کچھ دن پہلے اردن میں جلاوطن کر دیا گیا۔ لیکن فاطمہ لبنان جا کر آباد ہوگئیں۔ لبنان میں فاطمہ نے فتح تحریک کے موبلائزیشن اور سیاسی رہنمائی کے شعبے میں شمولیت اختیار رکھی، جس کی قیادت فتح ابو الرب "خطاب" نے کی، یہاں تک کہ وہ سنہء 1982 میں اسرائیلی حملے کے بعد لبنان چھوڑ گئیں۔

سنہء 1993 میں"اوسلو" معاہدے کے بعد اور سنہء 1994 میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے قیام کے بعد، فاطمہ البرناوی سنہء 1994 میں وطن واپس آئیں، اور مرحوم صدر یاسر عرفات نے انہیں پہلی خواتین کی تنظیم قائم کرنے کا ذمہ دیا۔ فاطمہ کو غزہ کی پولیس فورس میں صدر یاسر عرفات نے انہیں کرنل کا عہدہ دیا، فاطمہ البرناوی کہا یہ ایک اور اعزاز بھی ہے کہ فلسطینی پولیس کے بانیان میں سے ہیں، وہ سنہء 2005 میں پولیس کے اس عہدے (میجر جنرل) سے ریٹائر ہوئیں۔

سنہء 1985 میں فاطمہ نے ادھیڑ عمر میں ایک فلسطینی مزاحمت کار کامریڈ قیدی العکاوی فوزی النمر سے تیونس میں شادی کی تھی، جو انیس سو پچاسی میں اسرائیلی قید سے رہا ہوئے تھے۔ یی شادی ایک قومی شادی مانی گئی جس میں کئی فلسطینی رہنماؤں نے شرکت کی، جس کی قیادت فلسطینی رہنما یاسر عرفات کر رہے تھے۔ سنہء 1994 میں قومی اتھارٹی کی غزہ آمد کے بعد صدر عرفات نے انہیں اپنا مشیر مقرر کیا، اور سنہء 1948ء میں مقبوضہ فلسطین میں کے لوگوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رابطہ قائم کرنے کا ذمہ دار بھی مقرر کیا۔

مئی سنہء 2015 میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے فاطمہ کی عسکری و سیاسی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہِ تکریمِ فلسطین (ملٹری) سے نوازا، اور سنہء 2020 میں قاہرہ میں فلسطینی سفیر اور عرب لیگ میں اس کی مستقل نمائندہ سفیر دیاب اللوح نے ان کے جدوجہد کے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا۔ فاطمہ البرناوی کا انتقال 3 نومبر سنہء 2022 نیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے فلسطین ہسپتال میں ہوا۔ انتقال کے تین دن بعد ان کی جسد خاکی کو غزہ میں لا کر 6 نومبر سنہء 2022 کو انہیں غزہ کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ اس وقت کی فلسطین کے صدر محمود عباس نے فلسطین کا ایک قومی سانحے کے طور پر تین دن کے سوگ کا اعلان کیا تھا۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib