1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mansoor Nadeem/
  4. Chand Grahan Ki Kahani

Chand Grahan Ki Kahani

چاند گرہن کی کہانی

یہ واقعہ سنہء 1130 کا ہے، جب اندلس میں مسلمان علماء و اسکالرز کے علم کا طوطی بولتا تھا۔ اس وقت کے معروف ماہر فلکیات أبن باجہ الأندلسی نے شہر کے معروف و معزز لوگوں کے ایک ہجوم کو پہاڑ پر واقع اپنی فلکیاتی رصد گاہ میں کھانے کی دعوت پر مدعو کیا اور یہ بتانے کے بعد کہ اس نے ان کے لیے بہترین کھانا تیار کیا ہے، چونکہ ابن باجہ الأندلسی اس عہد کے معروف فلسفی اسکالر تھے، انہوں نے جب تمام لوگوں کو بلالیا تو کھانا کھلے آسمان تلے چاند کی روشنی میں پیش کیا اور آسمان پر چمکتے چاند کی طرف دیکھتے ہی ان کے لیے گانا گانا شروع کیا۔

شقيقك غيب في لحده وتشرق يا بدر من بعده

فهلا خسفت فكان الخسوف حدادا لبست علي فقده

ترجمہ: تیرا بھائی اکیلا چلا گیا اور اے بدر اس کے بعد تو چمکے گا۔

کیا گرہن نہ ہوتا اور گرہن اس کے کھو جانے کا ماتم کر رہا تھا۔

ابن باجہ الأندلسی گانا گانے کے دوران بار بار یہی جملے دہرانے شروع کردیتا، اور دہرانے لگا کہ "کیا سورج گرہن نہیں لگے گا، کیا گرہن نہیں لگے گا؟" پھر لوگوں نے دیکھا اچانک، گرہن واقع ہو جاتا ہے، اور اسی لمحے چاند آسماں سے غائب ہوگیا اور مکمل اندھیرا چھا گیا۔ ابن باجہ الأندلسی کو اسی موقع کا انتظار تھا بطور ایک ماہر فلکیات کی حیثیت سے ابن باجہ الأندلسی نے فلکیاتی حساب سے سال، مہینے، دن، گھنٹے اور منٹ کے حساب سے چاند گرہن کی تاریخ کا حساب لگایا ہوا تھا، اس لیے اس نے لوگوں کو اس علم کی آگاہی سے حیران کرنے کے لئے یہ بات بتائے بغیر ان کے لیے یہ تقریب رکھی تھی تاکہ وہ موقع پر ہی اسے جان سکیں۔ یعنی چاند گرہن کا فلکیاتی علم اندلس کے علماء اس وقت کی باقی دنیا سے پہلے سے جانتے تھے، یہ وہ دور تھا جس وقت یورپیوں کا خیال تھا کہ چاند گرہن کے وقت چاند کو ایک بڑا شیطان کھا رہا ہے، اور وہ گلیوں میں بھاگتے اور چیخ و پکار کرتے تھے۔

ابن باجہ الأندلسی کا پورا نام ابوبکر محمد بن یحییٰ ہے، ابن باجہ الأندلسی گیارہویں صدی عیسوی (پانچویں صدی ھجری کے آخر میں) کے آخر میں سرقہ میں پیدا ہوئے، کچھ روایات کے مطابق ان کی جائے پیدائش زرگوزا ہے، ان کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے، وہ اپنے شہر سے سیویل کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوا جب یہ 512 ھجری میں الفونس اول کی گرفت میں آئے، وہاں سے المیریا اور غرناطہ کے شہروں میں ایک مدت تک رہے، پھر وہاں سے مراکش کے شہر فیز میں منتقل ہوگئے۔ ابوبکر محمد بن یحییٰ کا عرفی نام ابن الصیغ یا ابن باجہ ہے، قرون وسطی کے مغربی علماء انہیں سفارت کار کے طور پر جانتے تھے۔ اندلس کے مشہور عرب اسکالروں میں سے ایک تھے، وہ طب، ریاضی اور فلکیات کے علوم میں مہارت کی وجہ سے مشہور تھے، مگر اس کے علاوہ بھی ان کی علمی حیثیت بطور فلسفی، مصنف، طبیب، ماہر نباتیات، شاعر، طبیعیات دان، موسیقار اور دربار سے وابستگی کی وجہ سے بحیثیت سیاست دان بھی رھی تھی۔

ابن باجہ الاندلسی کے علمی کاموں میں طب اور فلسفے میں ارسطو، جالینوس، فارابی اور رازی کے کاموں کی تشریح شامل تھی، اس کے علاوہ "ارسطو کے نظریۂ رفتار کا ردّ" علمی بنیادوں میں ان کی ایک نمایاں علمی خدمات میں گردانا جاتا تھا۔ ابن باجہ اندلس کے عربوں میں پہلا شخص تھا جس نے مشرقی فلسفے پر کام کیا۔ الفارابی اور ابن سینا، اور ابن طفیل نے ان کے علمی تذکروں کا خوب ذکر کیا ہے، بطور فلسفی ابن باجہ الاندلسی علم کی وحدت پر یقین رکھتا تھے، قدیم یونانیوں کی تخلیقات کی فہرست بنانا، پھر مشہور مسلم اسکالرز کی آراء پیش کرنا، اس پر تنقید کرنا یا اس پر تبصرہ کرنا، اور وہاں وہ ہندسی اور ریاضی کے اصولوں کی تفصیل دیتا ہے، پھر آپ اسے دوسرے پیغام میں دھنوں کے قواعد کے بارے میں بتاتے ہوئے پاتے ہیں۔ اور ایک تہائی میں وہ فلسفہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، دماغ اور روح وغیرہ کے بارے میں بات کرتا ہے، ابن باجہ کے تمام خطوط کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے آپ کو اندلس والا دکھاتے تھے، جو مشرقی فلسفہ سے متاثر تھا، وہ مشرقی فلسفے پر تنقید کرتا اور اسے ترقی دینے کی کوشش کرتا تھا۔

کچھ لوگ ابن باجہ الاندلسی کو ان کے شوق اور موسیقی میں کمال کی وجہ سے الفارابی سے تشبیہ دیتے ہیں، وہ موسیقی میں خاص طور پر عود بجانے میں الفارابی سے مشابہت رکھتے تھے۔ خود ابن باحہ کا موسیقی کے متعلق یہ کہنا تھا کہ "جہاں تک موسیقی پر عبور کا تعلق ہے، میں نے اس کی یہاں تک مشق کی کہ میں اس درجہ تک پہنچ گیا، جس سے میں اپنے لیے مطمئن تھا۔ علم طب کے مؤرخ ابن ابی عصیبہ نے طب میں ان کی مہارت کے بارے میں بات کرنے کے لیے ان کے لیے بطور خاص کچھ باب مختص کئے تھے۔ ابن باجہ الأندلسی کو خوشی کا فلسفی بھی کہا جاتا تھا۔ ابن باحہ ایک انسائیکلوپیڈک فلسفی تھا۔ جس نے طب اور موسیقی کو بھی اپنے علم کا میدان بنایا، وہ انجینئرنگ، فلکیات کے علاوہ شہر کی منصوبہ بندی میں بھی رائے رکھتا تھا، اس نے اپنی تحریروں سے تمام عمر میں فلسفے کے سوال کے اس عظیم مقصد تک پہنچنے کا مقصد بنایا، جس کے استعمال سے ہم خوشی کا مفاہیم تلاش کرتے ہیں۔

بہرحال ابن باجہ الأندلسی کی موت زہر دینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ چونکہ اس عہد میں تمام اسکالرز دربار سے وابستہ رہتے تھے، ان کی علمیت و شہرت کی وجہ سے ان کے عہد کے طبیب ان سے حسد کرنے لگے اور ایک سازش کے تحت انھیں زہر دے دیا گیا جس سے وہ فاس (مراکش) میں 529 ہجری کو انتقال کر گئے تھے۔ (ہمارے ہاں کچھ علمی مناکشفہ کرنے والے یہ ضرور بتاتے ہیں کہ مسلمان اسکالرز کی موت کیسے ہوئی، حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ایسا ہر دور میں رہا ہے جو افراد دربار سے وابستگی رکھتے ہیں، ان کے معاملات میں اس عہد میں وہ خود ظلم کا شکار ہوتے تھے یا بطور ظالم اپنی زندگی میں دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے تھے، اس کا ان کے علمی کاموں سے کوئی تعلق نہیں تھا)۔ ابن باجہ نے تین مختلف زمروں (شروحات ارسطوطالیس، تصانیفِ اشراقیہ، طبی تصانیف) میں کام کیا ہے، ابن باحہ نے جیومیٹری، موسیقی اور فلکیات پر دیگر کام چھوڑے، ہیں اور بعض نے ان کی تصانیف کو 27 کتابوں میں شمار کیا ہے اور کچھ اسکالرز کے مطابق انہوں نے 28 تصانیف لکھی ہیں۔

ان کی طبی تصانیف یہ ہیں:

کلام علی شیء من کتاب الادویہ المفردہ لجالینوس۔

کتاب التجربتین علی ادویہ وافد۔

رازی کی کتاب "الحاوی" کی اختصار بعنوان "اختصار الحاوی"۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo