Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Barzakh, Samaji Tanazur Mein Aik Tanqeedi Jaiza (2)

Barzakh, Samaji Tanazur Mein Aik Tanqeedi Jaiza (2)

برزخ، سماجی تناظر میں ایک تنقیدی جائزہ (2)

جو بچے یا افراد کسی بھی قسم کی ہم جنس پرستی کی طرف رغبت رکھتے ہیں یہ ان کے نفسیاتی مسائل ہیں، وہ بچے عملی زندگی میں غیر محسوس طور پر ان نفسیاتی مسائل میں شامل ہوتے ہیں، ایک اور بات سمجھنے کی یہ ہے کہ بعض لوگ جو پیدا ہوتے ہیں، وہ ایسے احساسات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے مخالف جنس سے Feelings یا Attraction (کشش) ہونے کے بجائے اپنے ہی جینڈرز کے لوگوں سے ہوتی ہے تو یہ واقعتا ایک حقیقی Scientific Issue ہے، جن کے ساتھ شروع سے ہی مسئلہ رہتا ہے تو کیا آپ کے خیال میں معاشرتی سطح پر ان کی کونسلنگ کے بجائے آپ انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں گے؟ لوگوں کی کونسلنگ کریں تاکہ وہ روئیے مزید پروان نہ چڑھیں، جہاں کچھ بھی اس طرح کی کیفیات آپ کو نظر آئیں تو آپ ان کو پراپر کونسلنگ کریں اور دوبارہ وہی والی بات آ جاتی ہے کہ جب تک آپ اپنے معاشرے میں ان نفسیاتی مسائل کو ایڈریس نہیں کریں گے، درست طریقے اور معاشرتی سطح پر تو یہ مسائل آتے ہی رہیں گے، ان مسائل کا سائنسی و سماجی تکنیک انداز میں تجزیہ و تدارک کرنا ہوگا نہ کہ ان مسائل کو اجاگر کرنے والوں یا سوال اٹھانے والوں پر ہی جرح شروع کردیں۔

لکھاری، ڈرامہ یا فلم کو ایک آرٹ کے طور پر بہت سارے سوالات میں آپ کے سامنے لا رہا ہے۔ یہ تو نفسیاتی الجھنوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف توجہ ہے، ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ ذہنی دباؤ یا کسی بھی قسم کے اسٹریس یا پریشانی میں کسی ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں وہ صرف پاگل ہی ہوتے ہیں، لیکن یہ سمجھ لیں کہ انسانی جسم کی بیماری کی طرح کبھی کبھی ذہن بھی بیمار ہوتا ہے، انہیں آپ وقت کے کسی مخصوص لمحاتی دورانئے میں نفسیاتی مریض سمجھ سکتے ہیں، جب تک کہ ہم ان باتوں سے باہر نہیں نکلیں گے، اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ انسان کو بہت سارے نفسیاتی مسائل ہو سکتے ہیں، جس کا سامنا کسی بھی نارمل رویے کے فرد کو ہو سکتا ہے، بس کچھ رویوں کی تبدیلی یا شدت جو اس کے بچپن، بچپن میں پیدا ہونے والے ماحول جس میں پرورش ہوئی، ماں باپ سے جڑے ایسے مسائل جو فرد کی شخصیت پر اثر انداز ہوں، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے جب تک یہ نہیں سمجھے جائیں گے، ہماری سوسائٹی میں ایسے مسائل رہیں گے۔

ڈرامے میں ایک کردار جسے صنم سعید نے نبھایا ہے، جو پہاڑوں کی بیٹی ہے، یہ واقعی بعض لوگوں کو بہت عجیب لگ رہا ہوگا کہ بار بار ڈرامے میں کہا جاتا ہے کہ آسمان سے آئی ہوئی ہے، جس کا کوئی Parental background بیک نہیں دکھایا گیا، لیکن بات یہ ہے کہ جو کہیں سے بھی نہیں آیا وہ پھر بھی کہیں سے تو آیا ہی ہے، تو بجائے کہ آپ اسے یہ کہیں کہ وہ ایک ناجائز اولاد ہے یا کچھ اور ہے وہ پہاڑوں سے آئی ہوئی ہے تو رائٹر آپ کو یہ بھی بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آپ یہ بات سمجھ لیں اور یہ بات ہم سب کہتے ہیں اگر کوئی ایک ایسا جوڑا جو کہ اولاد کی کمی سے بہت زیادہ سٹرگل کر رہا ہے اور محروم ہو تو اسے ایدھی کے جھولے سے ایک چھوٹا بچہ مل جاتا ہے تو ان کے لیے وہ پہاڑوں سے ہی آیا ہوا ہے، یا اللہ تعالی نے ان کے لئے اس کو بھیجا ہے، ان کو اس سے بات سے دلچسپی بھی نہیں ہے کہ ناجائز تھا یا نہیں تھا، کسی کے ناجائز سے ان کی گود بھر گئی، انہیں بچہ مل گیا، انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کسی فقیر کا تھا، یا کسی نے اسے کچرے میں پھینک دیا تھا۔ وہ ایک شخص کو پہاڑوں میں ملتی یے، مگر وہ کہیں سے تو آئی ہے قانون فطرت کے انسانی وجود کی تخلیق کے جو اصول ہیں اسی کی وجہ سے ہی آئی ہے۔ بس یہی وہ تخیلاتی پرواز ہے۔

جب بھی کوئی رائٹر کچھ لکھتا ہے، تو ہمیشہ یہ نہ سوچیں کہ وہ لوگوں کے لیے لکھتا ہے، کبھی کبھی رائٹر اپنی تحریر اپنے لیے بھی لکھتا ہے تو سمجھ لیں کہ یہ تحریر اس نے اپنے لیے لکھی ہے، لکھاری نے اس ڈرامے کی تحریر کے اندر بہت سارے ایسے پہلووں کو ٹچ کرنے کی کوشش اپنے طریقے سے کی ہے لکھاری نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب مسائل تو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، اور ان کی اثر انگیزی بھی معاشرے میں موجود ہیں، اب اس کہانی کا پیغام دیکھنے والوں پر ہے کہ وہ اس کی کن تشریحات کو دیکھتے ہیں، آپ ہمیشہ یہ مت سوچیں کہ جو رائٹر لکھ رہا ہے وہ صرف اور صرف آپ ہی کے لیے لکھا ہے۔

آپ کی سوسائٹی میں عمومی جو ڈرامہ لکھا جاتا ہے وہ دیکھنے والوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اکثر Superficial ڈرامہ ہوتے ہیں جو روز ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غریب لڑکی گھر سے نکلی اسے ایک امیر ادمی مل گیا، یہ آڈینس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور آڈینس خوش ہو رہی ہے جی فلاں اداکارہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے اور وہ بڑا ہینڈسم لگ رہا ہے، دیکھنے میں کیا ہی مزہ آ رہا ہے، ساس بہو کے جھگڑے، غربت سے امارت کا سفر یہ آڈینس کی سائیکالوجی سے کھیلا جا رہا ہے۔

بچپن سے آج تک اپنا سارا ادبی لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، جن کی قید میں رہنے والی شہزادی کو ایک خوبصورت شہزادہ شادی کے لئے چھڑاتا ہے، عمرو عیار کی زنبیل سے آپ دنیا بھر کی اشیاء نکال رہے ہیں، طلسم ہوشربا اور الف لیلوی داستانیں آپ کو مزہ دیتی ہیں کیا یہ سب Superficial نہیں ہیں، کیا یہ سب زمینی حقائق سے الگ داستانیں نہیں ہیں۔

قیصر احمد راجہ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ یہ برزخ ڈرامہ معاشرے کا ڈیمانڈنگ ڈرامہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ہیرو کو چار آدمیوں سے مرتا نہیں دیکھ سکتا، وہ ڈرامے میں ایک دھان پان سے ہیرو سے چار تگڑے افراد کو مار کھاتا دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے، اس کے نزدیک چار آدمیوں کا ایک فرد پر حاوی ہونا ایک نارمل سی بات ہے لیکن وہ ایکسپشنل کیس دیکھنا چاہتا ہے، کہ ایک آدمی چار آدمیوں کو مار کر دکھائے۔ وہ نارمل چیزیں نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ معاشرے کی درست تصویر کو سامنے لانے کے بجائے تصوراتی myth کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی اپنی مرضی و خیالات کے مطابق چاہتے ہیں۔

اس ڈرامے کے تبصرے کے conclusion کی طرف جانے سے پہلے میں کچھ مثالیں دیتا ہوں، میری اہلیہ نے یونیورسٹی کے بعد پہلی جاب چوبیس برس کی عمر میں شروع کی تھی، چوبیس برس کی لڑکی جو انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کے بعد جب وہ انگریزی لسانیات پڑھ کر ان چیزوں کو ہی بیان کرے گی، انگریزی لسانیات کی Subject میں یونانی myth میں ایک Cupid Love of God کا تصور موجود ہے، جس میں عورت کی محبت کا تصور ہے اور یونانی MTH میں ہر تصور کا ایک خدا موجود ہے، اور یہ ایک محبت کا خدا ہے، اس پر اہلیہ نے بورڈ پر وہ تصور لکھ ڈالا، اگلے دن انہیں اسکول کے اسٹاف روم میں شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جب پتہ چلا کہ ان کے بعد اگلا پیریڈ ایک اردو کی ٹیچر کا تھا، انہوں نے لفظ love of God کا مطلب جو سمجھا، اس کو اسلامیات کی ٹیچر سے مزید سمجھا اور اسلامیات اور اردو کی ٹیچر نے اس پر ایک مزاحمتی تحریک چلا کر اہلیہ کے خلاف سکول انتظامیہ کو شکایت پہنچائی کہ یہ بچوں کو کیا سکھا رہی ہیں، وہ تو بھلا ہو کہ Educator School کی برانچ کی پرنسپل مسسز عارف جو فوزیہ قصوری کی کلاس فیلو تھیں، کے پاس یہ کیس پہنچا تو وہ حیران رہ گئی کہ اس بات پر اتنا ہنگامہ کیونکر ہوا، چونکہ وہ لٹریری پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ اس لئے انہوں نے مزاحمتی فریقین کو سمجھا لیا۔

ایک اور مثال اہلیہ نے Sixth کلاس میں اسی اسکول میں انگریزی کی ایک شاعری کو پوری کلاس کے بچوں کو Explain کیا، اور پھر بچوں سے کہا کہ جو تشریحاتی وضاحت انہوں نے کی ہے اس کی روشنی میں وہ بچے خود اپنے الفاظ میں اسی وضاحت کو اپنی سمجھداری کے مطابق لکھیں، وہاں ایک بچے نے بہت غیر معمولی طور پر ایک عجیب وضاحت لکھی جس نے اہلیہ کو حیران کردیا، کہ اس چھوٹے سے بچے نے اس تخیل سے کیسے سوچ لیا، اور اس کی حیران کردینے والا سلسلہ ہر روز جاری رہا، نہ صرف انگریزی کلاس میں بلکہ اس بچے نے اپنی دماغی صلاحیت سے ہر ٹیچر کو حیران کر دیا، اس کے لیے باقاعدہ ایک میٹنگ کی گئی اس کے والدین کو بلوایا گیا اور ان کو یہ سمجھایا گیا کہ یہ سکول بھی اچھا ہے لیکن یہ بچہ اس اسکول سے بھی الگ کسی اور سطح کی صلاحیت کا بچہ ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی نہیں کریں اس کو اسی بچے کی ذہنی سٹینڈرڈ کے حساب سے پڑھائیں، جہاں تعلیم کسی کتاب کے نصابی طے شدہ اوراق کی قید میں نہ ہو، کیونکہ ان بچوں کے لئے نصاب کی خاص قید نہیں ہوتی کہ ان سے ایک مخصوص سوال کیا جائے گا اور اس کو انہوں نے مخصوص جواب دینا ہے۔

ارے بھائی جن جن لوگوں کو برزخ ڈرامہ پسند نہیں ایا، تو یہ تلخ حقیقت سن لیں کہ واقعی وہ ڈرامہ آپ ہے لئے نہیں ہے، وہ ڈرامہ آپ کے لیے لکھا ہی نہیں گیا، یہ ڈرامہ ہر کسی کے لیے نہیں ہے، تو آپ لوگ کیوں اس پر کیوں اظہار رائے قائم کر رہے ہیں، آپ اپنا پسندیدہ مواد اس کو عشق و عاشقی دیکھیں، غریب لڑکی سے امیر لڑکے کی جنونی محبت دیکھیں، ساس بہو اور نند کی سازشیں دیکھیں، جہاں بہت سارے لوگوں نے اس پر تن قید کی وہاں پر ایسے بھی تجزیہ موجود ہیں جو آپ کو حیران کر سکتے ہیں، اس ڈرامے کو دیکھ کر لوگ کن کن اپروچ سے سوچ رہے ہیں، اس ڈرامے میں بہت کچھ Eye Opening ہے، اس ڈرامے میں بہت کچھ انگریزی میں اسی لیے ہے کہ اس ڈرامے میں جو تصور دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا رائٹر یہ بات کہیں نہ کہیں جانتا تھا کہ وہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر انڈرسٹینڈنگ میں Exist نہیں کرتا، اور نہ اس کو عمومی لوگ سمجھ پائیں گے تو اس وجہ سے شائد اس میں انگریزی زیادہ رکھی گئی ہے، یہ صرف ایک خاص اڈینس کے لیے ہی ہے اور اس ڈرامے کو دیکھ کر اندازہ بھی لگا لیں کہ یہ بات واضح طور پر رائٹر اپنی طرف سے کیوں کر رہا ہے، یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ اسے مکمل اردو آڈینس کے لیے یا رائٹر کے ذہن میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس نے Purley اردو میں نہیں بیان کیں۔

عموماََ انگریزی ادب والے لوگ اس کو پھر بہتر طریقے سے انڈرسٹینڈ کرتے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں ایک اور بدقسمتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف انگریزی ادب والے ہی اسے سمجھیں گے، میں یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ اگر آپ عربی ادب پر بھی دسترس رکھتے ہوں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عربی میں بھی کئی فلمیں اور ڈراموں میں آپ کو اسی طرح کے تخیلات نظر آئیں گے، مزید بدقسمتی یہی ہے کہ عربی کو ہم ایک مخصوص مذہبی کی خاص زبان سمجھا ہوا ہے اور اس میں ہم مذہبی تفہیم کو ہی دیکھتے ہیں ورنہ عربی زبان میں ایسے ادبی ناول ڈرامہ یا فلمیں موجود ہیں جو ایسے کئی موضوعات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔ انگریزی میں ایسے ہی موضوعات کے اندر مبہم اشاروں میں بہت سارے پیغامات یا موضوع چھپے ہوتے ہیں ان کے لئے ایک انگریزی ٹرم Read between the line استعمال ہوتی ہے، اور اہل فکرکے لیے یہ Read between the line بہت اہمیت رکھتا ہے۔

نوٹ: یہ تجزیہ میرا اور اہلیہ کا اس ویب سیریز ڈرامہ "برزخ" پر ایک مباحث کا نتیجہ بھی ہے، اور حقیقتا میں اس ڈرامے کو ایسے ہی دیکھتا ہوں۔ اس تجزئیے میں میری اہلیہ کے خیالات بھی موجود ہیں۔

Check Also

Asad Muhammad Khan

By Rauf Klasra