Arab Mein Molud Un Nabi (2)
عرب میں مولود النبی ﷺ (2)
عرب ملکوں میں مولود النبی ﷺ کیسے منایا جاتا ہے، اس حوالے سے اہل عرب میں دو متضاد و متقابل آراء ہیں۔ ایک طبقے کے مطابق چونکہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی اور بعد زندگی کے ابتدائی صدیوں تک ایسے کسی دن کو نہیں منایا گیا اس لئے وہ ایسے کسی ایونٹ کو قبول نہیں کرتے، لیکن دوسرا طبقہ جو ایسا کرتا ہے، وہ بھی اسے نہ مذہبی تہوار سمجھتے ہیں نہ ہی اس میں کچھ غلو کرتے ہیں اور نہ ہی اسے بطور ایک عبادت کے مناتے ہیں بلکہ صرف ایک محبت کا اور رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق کا ثقافتی اظہار سمجھتے ہیں، لیکن اصل سوال ہے کہ اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟
اصل میں عباسیوں کے عہد کے بعد مسلم دنیا میں مولود کے تہوار کو منایا گیا تھا، یعنی فاطمیوں کے دور حکمرانی میں سب سے پہلے اسے باقاعدہ حکمرانوں کی طرف سے منایا گیا۔ اس میں سب سے معروف روایت جو تاریخ میں ملتی ہے وہ مصر سے فاطمی حکمران الحکیم بن عمرو اللہ سے ملتی ہے۔
مصر۔
مصر میں مولود النبی باقاعدہ طور پر ایک روایتی طرز میں ملتا ہے، وہاں ایک معروف اصطلاح بھی ہے، جسے "عروسة المولد" کہا جاتا ہے۔ یعنی میلاد کی دلہن، میلاد کی دلہن مصر میں نبی ﷺ کی سالگرہ منانے کی علامتوں میں سے ایک ہے، مصر میں نبی کریم ﷺ کی مولود منانے کا مطلب لڑکیوں کے لیے "مولود کی دلہن" اور لڑکوں کے لیے "مولود کا گھوڑا" ہے۔ یہ مٹھائیوں کو اس شکل میں۔ ڈھالنے کا طریقہ تھا، ان کے بعد آنے والی نسلوں کو یہ رواج وراثت میں ملا، میلاد کی مٹھائیوں کے علاوہ بچوں کے لیے میٹھی گڑیا اور میٹھا گھوڑا خریدنے کا رواج ہے۔ اس کی ایک دلچسپ تاریخ ہے، جو مصر میں فاطمی دور سے تعلق رکھتی ہے۔
عہد فاطمی میں حاکم وقت الحکیم بن عمرو اللہ، رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت منانے میں دلچسپی رکھتے تھے، اور ان کا معمول تھا کہ جب وہ خوش ہوتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ خوبصورت لباس زیب تن کرتے، چمکدار سفید لباس اور اس کے سر پر سفید چمیلی کا تاج پہناتے، اور اس دن خوبصورتی کو بڑھانے کے لیے آرائش کرواتے، یہی نسبت بنی جس سے انہیں میٹھی ڈش میں عروسة المولد بنانے کا خیال آیا۔ یہ ڈش مکمل طور پر چینی اور رنگین پتوں سے سجی ہوئی ہوتی تھی، جس سے میلاد کی ڈش کو جیسے اپنی بیویوں کو سجانے کے لیے استعمال ہونے والے لباس اور سجاوٹ کو ڈیزائن کیا کرتے اسی طرح اس ڈش کو بھی سجاتے، بس اس میں ایک جدت یہ کی کہ "عروسة المولد للبنات وحصان المولد للأولاد" یعنی "لڑکیوں کے لیے میلاد کی دلہن اور لڑکوں کے لیے میلاد کا گھوڑا کے نام سے مٹھائیاں بنوائی جاتی تھیں۔ حصان المولد للأولاد یعنی میلاد کا گھوڑا لڑکوں کی نسبت سے ایک بہادر جنگجو جو اپنی تلوار کی طاقت کا اظہار کرتا ہے اور خدا کے حکم سے حکمران کی علامت ہے، جس میں لڑکوں کو ہمت اور بہادری سکھانے کے اظہار کی علامت ہوتا تھا۔ عروسة المولد للبنات کی نسبت فاطمی حکمران الحکیم بن عمرو اللہ کی اپنی بیویوں کو خوبصورت دلہن کے طور پر قبول کرنے کی علامت تھی۔
فاطمی حکمران الحکیم بن عمرو اللہ نے نبی ﷺ کی یوم ولادت منانے کے موسم کو شادی کی خوشی جیسا قرار دیا تھا، عموماََ حکمرانوں کے فیصلے اسی طرح رعایہ کے بھی فیصلے بن جاتے ہیں اسی نسبت سے مولود منانے کا موسم شادیوں کا سیزن بھی بن گیا۔ پھر یہ روایت کچھ اس طرح سے بڑی کہ کسی بھی خاندان سے اگر کسی شخص نے شادی کی پیشکش کرنی ہوتی تھی تو وہ لڑکی والوں کے گھر میلاد کی نسبت سے معروف یہی میٹھی ڈش "عروسة المولد" تحفے کے طور پر پیش کرتے تھے اور یہ روایت آج تک بہت سے قریبی عرب ممالک میں رائج ہے۔
حالیہ زندگی تو گلوبلائزیشن کے بعد قدر بدل گئی، لیکن آج بھی مصری دیہاتوں میں یہ اہم رواج موجود ہے، جس کے تحت دولہا اپنی دلہن کو تحفے میں یہ گڑیا بھیجتا ہے، میلاد النبی ﷺ کے موقع پر مزیدار مولود مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ یہ رسمیں مصر میں حالات، ادواو اور حکمرانوں کے فرق کے باوجود اور معاشرے کی طرف سے شادی کو صرف سال کے اس وقت تک محدود رکھنے کے ترک کرنے کے باوجود موجود ہیں، اس کی وجہ مصر کے لوگوں کی تقریبات، خوشی اور مسرت سے جڑے اپنے رسم و رواج کی پابندی ہے۔
مصر میں ہر موقع کا اپنا ذائقہ اور اس کے رسوم و رواج ہیں، جو انہیں خوش رہنے کا موقع دیتے ہیں۔ اس لئے آج بھی مصر میں جب بھی مولود کا موقع آتا ہے گلیوں کو میلاد کی مٹھائیاں بیچنے والے بینرز سے سجا دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اس موقع کو منانے کے لیے میلاد کی مٹھائیوں اور سجاوٹ کے علاوہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے یوم ولادت سے چند ہفتے قبل ہی بڑی مساجد اور ثقافتی مراکز میں رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد کی شامیں منعقد کی جاتی ہیں، رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں بات کرنے والے حلقوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے حافظے اور تلاوت کے حلقے بڑھتے جاتے ہیں اور ملک بھر میں مولود کی ثقافتی فضا قائم ہوجاتی ہے۔
فلسطین:
فلسطین میں لوگ سڑکوں اور راہگزاروں کو سجاوٹ اور جھنڈوں سے مزین کرتے ہیں، روایتی قصائد گانے والے گروہ گلیوں اور سڑکوں پر گھوم رہے ہوتے ہیں، گلیاں اور مساجد اس موقع پر بھری ہوئی اور چہل پہل نظر آتی ہیں، اجتماعیت کی شکل میں دکانوں کے مالکان خصوصی رعایت دیتے ہیں اور گھروں میں خواتین بھی پڑوسیوں اور راہگیروں میں روایتی کھانے اور مٹھائیاں تقسیم کرتی ہیں۔
تیونس:
جہاں تک تیونس کا تعلق ہے، یہاں مولود کے موقع کو اجتماعیت کا درجہ حاصل ہے، ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، تحائف دیتے ہیں، قصائد اور ذکرکے حلقے بڑے پیمانے پر لگتے ہیں۔ تیونس میں اس دن کو اجتماعیت کے طور پر ایک مخصوص دسترخوان سے سجایا جاتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اس دن دلیہ کو بنیادی کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور یادگاری اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، اور لوگ اس دن خوشی منانے کے لیے ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں۔
الجزائر:
الجزائر میں بھی مولود کا موقع ایک ثقافتی مظہر ہے، الجزائر میں اس موقع پر سڑکوں اور مساجد کو سجایا جاتا ہے، یہاں بھی قصائد ذکرکے حلقے و محافل منعقد ہوتی ہیں، الجزائر کے لوگ ماہ ربیع الاول کے شروع میں اپنے گھروں کی صفائی اور سجاوٹ کے عادی ہیں اور ان کے ہاں لیل مولود کی رات کو جمع ہونا ضروری ہے۔ یہ اس دن کھانے کی میز کے ارد گرد موم بتیاں روشن کرتے ہیں اور قصیدے پڑھتے ہیں، جن میں سب سے نمایاں نظم (ہمارے اوپر پورا چاند طلوع ہوا) ہے، اور مولود کی صبح خواتین سڑکوں پر نکلتی ہیں اور یہ مولود کا پورا ہفتہ یہاں خصوصا سبت (ہفتہ) کے نام سے معروف ہے۔
متحدہ عرب امارات:
متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ ریاستی سطح پر اسلامی امور اور اوقاف کی جنرل اتھارٹی کی طرف سے مولود کے موقع پر ایک سرکاری تقریب منعقد کی جاتی ہے، جس میں متعدد تقریبات شامل ہوتی ہیں جیسے کہ قرآن پڑھنا اور سیرت پر لیکچرز، جس میں رسول ﷺ کی سیرت کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔
لیبیا:
لیبیا میں بھی رسول ﷺ کے یوم ولادت کی تقریبات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس موقع پر خصوصا وہاں پر کھجور کے جھنڈ، رنگ برنگے بینرز اور دف بجائے جاتے ہیں۔ مقامی افراد خاندانوں میں اس موقع پر اجتماعی دستر خوان پر سب کو جمع کرتے ہیں، یہاں بھی روایتی ڈش جو اس ضمن میں۔ عروف ہے وہ جو کا دلیہ ہے، مساجد لوگوں سے بھری ہوتی ہیں اور قصائد کے حلقے لگتے ہیں، ویسے لیبیا کے مقامی لوگ اس دن کو (المیلود) کہتے ہیں۔
سوڈان:
سوڈان میں مولود کے لئے بھی ایک مقامی لفظ "الزفہ" معروف ہے، اہل سوڈان بھی میلاد النبی ﷺ کی تقریبات کو مناتے ہیں، وہاں بھی چراغاں، قصائد کی محافل اور دسترخوان سکتے ہیں، مگر اہل سوڈان کے ہاں یہ روایت ربیع الاول کے مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع ہوتی ہے اور مسلسل دس دن تک جاری رہتی ہے۔
سعودی عرب:
پچھلے حصے میں سعودی عرب میں مولود کے حوالے سے بالتفصیل لکھ چکا ہوں، ہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سعودی عرب میں مولود النبی سرکاری سطح پر بالکل نہیں منایا جاتا، اور عوامی سطح پر بھی یہ جمعیہ اور خاندانی سطح پرہی منایا جاتا ہے، مگر سعودی عرب میں زیادہ تر لوگ اس ثقافتی رواج کو نہ منانے والوں میں سے ہیں۔ مگر مولود النبی کے دعن مکہ میں مسجدالحرام کے کلاک ٹاور میں روشنی کی 16 کرنیں روشن کرکے منایا جاتا ہے، جن کی روشنیاں تقریباً 10 کلومیٹر چوٹی تک پھیلی ہوتی ہیں، اور یہاں کے کئی حلقوں میں اس دن سیرت نبوی پر سیشنز بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔
اردن:
اردن میں قریب تین برس پہلے باقاعدہ پارلیمان میں اس پر بحث ہوئی تھی کہ مولود النبی ﷺ کے دن اردن میں سرکاری چھٹی رکھی جائے، یعنی وہاں بھی کچھ حلقے میں مولود النبی ﷺ فلسطین و مصر میں منائی جانے والی روایت کی طرح ہی منایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ لبنان، عراق و شام میں بھی مولود النبی ﷺ منانے والے حلقے موجود ہیں، عرب ملکوں کے علاوہ بھی ترکیہ، ایران اور سینٹرل ایشیا کے کئی ملکوں میں مولود النبی ﷺ کو بطور ثقافتی مظھر کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
نوٹ: مولود النبی ﷺ کے حوالے سے میری یہ تحریر صرف معلومات اور حقائق کی بنیاد پر ہے اس پوری تحریر میں میری ذاتی رائے شامل نہیں ہے، اب اگر کچھ بے وقوف مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ عرب ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا تو میں نے تصاویر لف کی ہیں آپ گوگل پر تصدیق کر سکتے ہیں، مزید اس کے منانے والے یا نہ منانے والے دونوں طبقات یہاں پر آ کر اپنے مسلکی تعصب کی بنیاد پر کمنٹ نہ کریں تو بہتر رہے گا۔
2- ویسے بھی پاکستان اور ہندوستان کے کلچر میں منانے والے اور نہ منانے والے دونوں طبقات ہی انتہا پسندی کا شکار ہیں، اور بدقسمتی سے اس خطے میں مولود النبی ﷺ کے منانے میں جس درجہ غلو شامل ہو چکا ہے۔ وہ بھی ایک تکلیف دہ امر ہی ہے، بلکہ یہ محبت کی ثقافتی نشانی کے بجائے ایک پوری کاروباری انڈسٹری بنا لی گئی ہے۔
3- جنہیں مولود النبی ﷺ کی تاریخ اور مصر کی مولود کے حوالے سے "عروسة المولد للبنات وحصان المولد للأولاد" کی ثقافت پر یقین نہ آئے تو وہ یوٹیوب پر سرچ کرکے دیکھ لیں انہیں مصر کے بازاروں میں اس طرح کے کھلونے، مولود کے کارڈز اور اسکولوں میں آج بھی اس روایت کے زندہ ہونے کا ثبوت مل جائے گا۔ جہاں نسل در نسل لڑکیوں کے دلوں پر اثر انداز ہونے والی اس دلہن سے محبت اور تعلق کی وجہ سے لڑکیاں یہ سیکھنے کی خواہشمند رہتی ہیں، وہاں ان مواقع پر اسکول میں بچوں کے لیے شاید سب سے اہم سبق اس حوالے سے ڈرائنگ کلاس ہے۔