Arab Mein Biwiyon Ke Liye Shayari
عرب میں بیویوں کے لئے شاعری
زمانہ قبل از اسلام عرب اپنے ہر درد خوشی، جذبات و احساسات کے علاوہ تخیل کی منظر کشی، سیاحت، فتوحات، تاریخ تہذیبی و ثقافتی روایات تک کا اظہار شاعری سے کرتے تھے، مگر سب سے دلچسپ بات ہے کہ عشق کے اظہار کے لئے بھی شاعری کا ہی سہارا لیتے تھے، اس لئے قبل از اسلام کی کئی روایات مقامات تہذیبی و ثقافت کا پتہ ہمیں شاعری سے ملتا ہے۔ عربوں کی شاعری میں اک اور کمال یہ تھا کہ چاہے کوئی شاعر اپنے سفر، حرب یا کیفیت کے اظہار کے لئے بھی کسی فرضی یا حقیقی محبوب کی تعریف سے اس کا آغاز کرتا تھا۔
اس کا اشارہ رسول اللہ ﷺ کے لئے سب سے کمال قصیدہ لکھنے والے حسان بن ثابتؓ ہوں یا چاہے کعب ابن زہیر کا قصیدہ بانت سعاد ہو۔ ان کے اشعار کے آغاز میں کسی محبوب کی تعریف ہی رہی۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی تعریف کا آغاز بھی ویسے ہی محبوب کی تعریف کے طرز پر ہی کیا۔ مگر ایک عجیب بات رہی کہ عربوں کے ہاں شاعری میں جتنا محبوب کا ذکر رہا، وہ ہمیشہ محبوب یعنی "عورت" کے لئے ہی تھا نہ کہ کسی عرب شاعر نے کبھی اپنی زوجہ کے لئے قصیدہ لکھا، یعنی وہ عورت کی تعریف تو کرتے تھے اور اس درجہ کمال کی کرتے تھے کہ آج تک عربی شاعری کی ان کیفیتوں اور تخیل سے آپ لطف اٹھا سکتے ہیں۔
مگر کوئی بھی شاعر یہ اشعار کسی عورت کے لئے ہی کہتا تھا، جو اس کے نکاح میں نہیں ہوتی تھی، اور عرب روایات میں اگر کوئی شاعر کھل کر کسی عورت کا چاہے نام لے کر شاعری میں اظہار کر دیتا تو عمومی طور پر ایسا اظہار کرنے والے کے لئے اس عورت سے شادی کرنا ناممکن بنا دی جاتی تھی۔ پھر چاہے وہ قیس بن ملوح ہو جو لیلیٰ کی محبت میں گرفتار ہوا یا قیس بن ذلیح ہے جو لبنیٰ نامی عورت پر فدا ہوا، انہوں نے اظہار کیا تو ان کے لئے ان کا مطلوبہ رشتہ ملنا ناممکن ہوگیا۔
پھر چاہے جمیل بن معمر اور بثینہ کی محبت کی لازوال محبت کا گواہ العلاء کا صحرا بنا، یا عنترہ بن شداد العبسی تھا جس نے عبلہ کے لئے ایسے لازوال قصیدے لکھے کہ انہیں کعبے کی دیواروں سے لٹکایا جاتا تھا۔ ان قصائد کو معلقات کہا جاتا تھا۔ عنترہ ان عرب شعرا میں شامل ہیں جن کا قصیدہ معلقات میں شامل کیا گیا تھا، ان سب کو اپنے اشعار میں محبوب کے نام کا اظہار کرنے کی قیمت انہیں تاعمر کی جدائی یا پاگل پن ملا، یہ الگ بات ہے کہ آج بھی ان کے قصے پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔
یہ نسبت بھی رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئی کہ ایک بار آپ رسول اللہ ﷺ صحابہ کی محفل میں بیٹھے تھے کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ نے آپ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: من أحب إليك۔
ترجمہ: آپ کس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عائشہ
یعنی آپ نے پہلی بار اپنی زوجہ کے لئے محبت کا اظہار محفل میں کیا، جو اسوقت اس معاشرے میں روایت کے خلاف تھا۔ اس سے پہلے داماد رسول اللہ ﷺ بھی جب قبول اسلام سے پہلے زینب بنت محمد سے اپنی اہلیہ سے جدائی کے دوران رسول اللہ ﷺ سے کئے گئے علیحدگی کے عہد کو نبھا تو رہے تھے، مگر زینب بنت محمد کو کبھی بھول نہ پائے تھے، ایک بار ابوالعاص تجارتی قافلے میں سفرِ کے دوران زینب کی محبت میں ایسے بے چین ہوئے تو ان کی دل کی فریاد شعر میں ڈھل گئی اور بہت ہی پُر سوز آواز میں انہوں نے یہ اشعار پڑھے تھے۔
ذکرت زینب لما درکت ارما
فقلت سقیاً لشخص یسکن الحرما
بنت الامین جزاھااللہ صالحہ
و کل بعل یشنی ما الّذی علما
ترجمہ: جب میں ارم سے گزرا تو زینبؓ کو یاد کیا، اور کہا کہ خدا اس شخص کو شاداب رکھے جو حرم میں مقیم ہے، امین کی بیٹی کو خدا جزائے خیر عطا کرے، اور ہر خاوند اسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے۔
عورت سے محبت کا سب سے خوبصورت تعلق بلاشبہ نکاح ہے، مگر جب جو عورت آپ کے نکاح میں ہو، پھر اس کے لئے شعرا کے قصیدوں کے بجائے صرف محبوب کی قصیدہ گوئی ہی کیوں؟ اور ہمارے ہاں کتنے لوگ اپنی بیویوں کے لئے ایسے اظہار کا حوصلہ عملا رکھتے ہیں؟