Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Arab Ki Sab Se Maroof Sweet Dish

Arab Ki Sab Se Maroof Sweet Dish

عرب کی سب سے معروف سوئیٹ ڈش

اہلِ عرب میں میٹھے پکوانوں کا بادشاہ "ام علی" ہے۔ "ام علی" اہلِ عرب کے لوگوں کے پسندیدہ پکوانوں میں سے ایک ہے۔ "ام علی" ایک روایتی مصری میٹھا ہے، اور یہ مصر کا قومی میٹھا پکوان بھی ہے۔ لیکن اس کی شہرت اور اہمیت آج صرف مصریوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو یہ سارے ہی عرب ممالک میں منتقل ہو چکی ہے۔ اس کے بنانے والوں نے اس میں مختلف اشیاء کو شامل کرنے میں بھی کمال حاصل کیا ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔

لیکن بنیادی اجزاء میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ میٹھی ڈش گرم ہی پیش کی جاتی ہے جو دودھ اور میدے کی روٹی کے ٹکڑوں کا مرکب ہے جس میں حسبِ ضرورت میوے بھی ڈالے جاتے ہیں۔ مغربی عراق میں اسے "الخمیا" کہا جاتا ہے اس میں مکھن یا چربی بھی ڈالی جاتی ہے، سوڈان میں اسے "فتعت اللبن" کہتے ہیں۔ یہ سعودی عرب کی بھی سب سے معروف میٹھی ڈش ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بھی بڑی تقریب میں "ام علی" موجود نہ ہو۔ شادیوں اور بڑی تقریبات یا پارٹیوں کا لازمی جز تصور کیا جاتا ہے۔

مجھے یہ انتہائی پسند ہے اور اس پکوان کی جتنی شہرت اہل عرب میں ہے۔ میں نے کئی لوگوں سے اس پکوان کے نام کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن عموماََ کسی سعودی، لبنانی یا مصری نے مجھے معقول وجہ نہیں بتائی۔ جسے بظاہر نام سے "ام علی" یعنی "علی کی والدہ" اس ڈش کا نام ہونا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کون ہے "علی" اور ان کی والدہ؟ جنہوں نے اس کھانے کا نام اپنے نام پر رکھا اور اس سوال کے جواب جاننے کے لئے مجھے کافی محنت کرنی پڑی تب جاکر دو روایات ملی۔

پہلی روایت کے مطابق" ام علی" کا نام مصر میں ایوبی دور کا ہے۔ مصر میں ایوبی سلطنت کے حکمران کی بیوی کے نام پر، جس نے اپنے باورچیوں سے کہا کہ وہ سب سے مزیدار میٹھا تیار کریں جو وہ بنا سکتے ہیں اور پورے ملک میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ یہی منتخب کردہ نسخہ بعد میں مصر کا قومی پکوان بن گیا۔ لیکن دوسری روایت اور معروف روایت زیادہ دلچسپ ہے۔ جو 700 سال سے زیادہ قدیم ہے۔ "ام علی" مصر کے حکمران سلطان نجم الدین ایوب کی مملوک فوج کے سربراہ عزالدین ایبک کی بیوی تھیں۔

سلطان نجم الدین ایوب کے عہد میں ایک لونڈی کی بہت تعریف سنی گئی جس کا نام شجرۃ الدر تھا۔ سلطان نجم الدین ایوب نے شجرۃ الدر کو تعریف کی وجہ سے اسے خرید لیا تھا۔ شجرۃ الدر چونکہ عام لونڈیوں جیسی نہیں تھی، بلکہ وہ اپنی تیز طراری، ذہانت اور خوبصورتی سے ممتاز تھی۔ اس لئے سلطان نجم الدین ایوب نے شجرۃ الدر سے شادی کرلی۔ شجرۃ الدر کی خوبیوں، خاص طور پر ذہانت اور سیاسی ذہانت نے مملوک ریاست اور بنو عباس کی بادشاہت کے خاتمے کے دوران مسلمانوں کے دفاع میں سلطان نجم الدین ایوب کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لوئس نہم نے جب لشکر کشی کی ٹھانی، اس دوران سلطان نجم الدین ایوب لوئس نہم کی آمد کے وقت بیماری سے مرگیا تھا۔ شجرۃ الدرنے اپنے شوہر نجم الدین کی موت کی خبر کو چھپانے کا حکم دیا۔ شجرۃ الدر نے جنگ کا انتظام کیا اور لوئس نہم کی فوجوں کا سامنا کیا اور جنگ کو مکمل طور پر کنٹرول کیا۔ اس کی موت کے بعد، وہ مصر پر حکومت کرکے خود مختار ہو گئی۔ اس نے اپنے نام کے سکے بھی بنوائے۔ جس پر "المستعصمية الصالحية ملكلة المسلمين والدة الملك المنصور خليل امير المؤمنين" لکھوایا۔

جس کا مطلب "المستسمیہ الصالحیہ: مسلمانوں کی ملکہ والدہ امیر المومنین منصور خلیل" کندہ تھے۔ اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کی خواہش (جسے بغداد میں عباسیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک عورت مصر کا تخت سنبھالے) نے اسے مجبور کیا کہ وہ کوئی مضبوط سہارا لے۔ چنانچہ شجرۃ الدر نے مملوک سپہ سالار عزالدین ایبک سے شادی کر لی اور یہ اقدام کرکے شجرۃ الدر نے بظاہر اپنا اقتدار محفوظ کرلیا۔ عوام اور عباسیوں کا اس پر اعتراض ختم ہوچکا تھا۔

لیکن شادی سے پہلے شجرۃ الدر نے عزالدین ایبک سے شرط رکھی تھی کہ وہ اپنی بیوی (ام علی) کو طلاق دے دے اور اپنے بیٹے المنصور علی کو بھی چھوڑ دے۔ تاکہ تخت اس کے بیٹے کے پاس نہ جائے۔ اس کے لئے شجرۃ الدر نے اپنے شوہر عزالدین کا بادشاہی خطاب "المیز" رکھا۔ شجرۃ الدر سے شادی کے بعد عزالدین ایبک "المیز" بااختیار ہوگیا اور مصر اور بیرون ملک معاملات کا حکمران بن گیا۔ المیز نے شجرۃ الدر کے اختیارات کو تصرف کرنا شروع کر دیا۔

حتیٰٰ کہ آمیز نے شجرۃ الدر کو ہر اختیار سے دستبردار کردیا اور ریاست کے معاملات سے اس کے تمام تعلقات منقطع کر دیے۔ اس سے سارے اختیارات چھین لیے آخر میں شجرۃ الدر کی حیثیت صرف بادشاہ کی بیوی رہ گئی، اور کچھ نہیں اور اس کا امور سلطنت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ شجرۃ الدر کو اب احساس ہوا کہ المیز سے شادی کرنے کا فیصلہ غلط تھا جس نے اس کے سارے اختیار چھین لئے۔ ان معاملات سے شجرۃ الدر کو غصہ آیا اور وہ حسد سے تقریباً اپنا دماغ کھو بیٹھی۔

وہ المیز سے شدید ناراض تھی لیکن بے اختیار تھی۔ شجرۃ الدر نے المیز سے بدلہ لینے اور اس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے ایک دن عزالدین ایبک المیز کو کھانے کی دعوت دی۔ جیسے ان کے درمیان کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ عزالدین ایبک المیز جب کھانے پر پہنچا تو شجرۃ الدر نے پہلے سے پانچ غلام باتھ روم میں چھپائے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد جب عزالدین ایبک المیز باتھ روم میں داخل ہوا۔ تو وہاں شجرۃ الدر کے پہلے سے موجود پانچ غلام اس پر جھپٹے اور المیز کو اتنا مارا کہ وہ مر گیا۔

جب عزالدین ایبک کی موت کا اس کے بیٹے علی کو پتہ چلا کہ شجرۃ الدر نے کیا کیا ہے تو اس نے اسے گرفتار کرکے اپنی ماں (ام علی) کے حوالے کر دیا۔ ام علی نے اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے باپ کا بدلہ لینے کے لیے شجرۃ الدّر کو اپنے ملازمین کو ہاتھوں سخت جوتوں سے پٹوایا۔ اس کے ملازمین اس وقت تک اسے جوتے مارتے رہے جب تک وہ ہلاک نہ ہوگئی۔

ام علی نے اسے سزا دینے کے بعد آٹا، چینی، گھی اور میدے کی روٹی کے ٹکڑوں کا ایک میٹھا کھانا بنایا اور شجرۃ الدر کی موت کا جشن منانے کے لیے سب میں تقسیم کیا اور یہاں سے اسے "ام علی" کا کھانا کہا گیا۔ اس کے بعد "علی" نے مصر کی حکومت سنبھالی۔ لیکن دو سال کے بعد الگ تھلگ ہو گئے اور مرتے دم تک ملک سے ہجرت کر گئے، اور مرنے کے باوجود "ام علی" کے کھانے والوں کے ذریعے ان کا نام وقت کے ساتھ ساتھ اس پکوان کی وجہ سے امر ہوگیا۔

نوٹ: یہ میری سوئیٹ ڈش میں سب سے پسندیدہ ڈش ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پکوان کی وجوہ کی کہانی المناک قسم کی ہے۔ مگر عرب ملکوں میں رہنے والے جنہوں نے اس ڈش کو نہ چکھا ہوگا۔ یقیناََ وہ ایک خوش ذائقہ پکوان سے محروم رہے ہیں۔

Check Also

Ye Roshni Fareb Hai

By Farhat Abbas Shah