Alif Lailvi Insan Younis Al Bahri
الف لیلوی انسان "یونس البحری"
یہ وہ عراقی شخص ہے، جس نے قانونی طور پر 100 سے زائد عورتوں سے شادیاں کی، اور اس کے علاوہ اس کی بغیر رجسٹرڈ شادیوں کی تعداد 200 سے زائد ہیں۔ اس کا نام یونس صالح بحری الجبوری ہے، یہ جنوری سنہء 1900 میں شام کے شہر موصل پیدا ہوا تھا، نسلا یہ عراقی ہے، اس کا تعلق معروف عرب جبور قبیلے سے ہے، یونس صالح نے بطور سیاح، صحافی، براڈکاسٹر، میڈیا شخصیت اور بطور مصنف دنیا میں شہرت پائی، یہ اپنی ذات میں عجائبات کا حامل رہا، اس شخص کی زندگی کامیابیوں، عجیب و غریت واقعات اور تضادات سے بھری ہوئی تھی، جن پر ذہن یقین نہیں کرتا، اسی لئے اسے "لیجنڈ آو دی ارتھ" کہا جاتا تھا۔
اس نے موصل اور استنبول کے ملٹری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہاں سے بطور افسر گریجویشن کیا۔ پھر سنہء 1921 میں اس نے جرمن شہر میونخ کے ملٹری کیولری اسکول میں مزید تعلیم مکمل کی، جہاں اس کی ملاقات ایڈولف ہٹلر سے بھی ہوئی، اس نے اپنی زندگی میں بہت سی کتابیں لکھیں، کئی ممالک کا سفر کیا، اسے 17 غیر ملکی زبانیں جن میں فرانسیسی، جرمن، کرد، ہندی، مالائی، انڈونیشی، ڈچ، پرتگالی، اطالوی، ہسپانوی، ترکی اور انگریزی وغیرہ میں مہارت حاصل کی اور اس کے پاس 15 ممالک کی شہریت تھی جیسے شامی، انگریز، عراقی، لبنانی، اردنی، سعودی، یمنی، لیبیا، تیونسی، مراکش وغیرہ شامل ہیں۔
یونس البحری سنہء 1939 میں براعظم یورپ کے پہلے عرب ریڈیو اسٹیشن "عرب ریڈیو برلن" کا بانی سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس نے عرب دنیا میں 16 ریڈیو اسٹیشن قائم کیے، جن میں ریڈیو بغداد، لیبیا، برلن، خرطوم، تیونس، الجزائر، مراکش، پیرس، عمان، موریطانیہ، ڈاکار، کونکری، ابجان، رام اللہ، بغداد ٹی وی وغیرہ ہیں، بی بی سی سے قرآن کی تلاوت نشر کروانے کا سہرا بھی یونس البحری کے نام ہے، بطور نیوز کاسٹر یا نقاد اس نے ریڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے عہد میں کچھ ممالک کے بادشاہوں اور صدور کی توہین کی۔ اس لئے اسے کچھ ممالک کی جانب سے چار بار موت کی سزا بھی سنائی گئی، اس نے اپنے وقت کی بیشتر مشہور شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔
اس نے اپنی زندگی میں بہت سارے متنوع پیشے بھی اختیار کئے، جیسے شاہ عبدالعزیز نے یونس البحری کو جنوب مشرقی ایشیا (ہندوستان) میں ایک مبلغ کے طور پر بھیجا، اس نے ایک ہندوستانی اخبار کے پریس نمائندے کے طور پر بھی کام کیا، یہاں تک ہہ وہ انڈونیشیا میں بطور مفتی بھی فائز رہا، جب وہ شاہی انقلاب کے بعد جیل میں تھا تو وہ ایک امام اور مؤذن تھا، اس کی تلاوت میں خوبصورت آواز تھی، جاوا میں اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ مراکش کے سلطان یوسف بن الحسن نے یونس کو پیرس کی ایک مسجد میں امام بنا کر بھی بھیجا، حتی کہ یونس البحری نے نائٹ کلبز میں بطور گلوکار گانے بھی گائے۔ مصری معروف گلوکارہ ام کلثوم سے اس کی ذاتی واقفیت رہی۔
یونس بحری نے 4 بار دنیا کا سفر کیا، امریکہ اور کینیڈا گیا، بحر اوقیانوس کو عبور کرکے یورپ پہنچا، وہ برطانیہ سے بیلجیم، ہالینڈ، فرانس اور جرمنی گیا، جب مصر پہنچا تو وہاں اس نے مصر کے ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے، وہاں نصر کے اخبارات میں بھی لکھتا رہا، سنہء 1925 میں عراقی ٹورسٹ کے نام سے واپس آیا، پھر کویت اور وہاں سے سعودی عرب گیا، جہاں وہ الاحساء میں رہا، نجد، حجاز، عسیر اور ربع الخالی جیسے خطرناک صحراء میں اکیلا سفر کرتے ہوئے یمن پہنچا اور وہاں سے یمن کے رہبر امام یحییٰ بن حمید الدین سے ملا، وہاں سے بحیرہ احمر کو پار کرکے اریٹیریا میں داخل ہوا۔ حبشہ اور سوڈان اور وہاں پر بھی صحرائے صحارا کو اکیلے ہی پیدل عبور کرکے الجزائر کا دورہ کیا، الجزائر کے مفکر ملک بینابی سے ملاقات کی، جس کا ذکر اس نے اپنی یادداشتوں میں کیا ہے۔
پھر مراکش میں اس نے فیز، میکنیس، مراکش، رباط اور ٹینگیئرز کا دورہ کیا، اور وہاں سے اسپین کی طرف یورپ کا رخ کیا، فرانس، جرمنی اور بیلجیئم کا دورہ کیا، انگلینڈ کا سفر کیا، اور ایک سمندر میں داخل ہوا۔ جہاں پر ایک انگلش چینل میں سمندر کو عبور کرنے کا مقابلہ ہورہا تھا، وہاں یونس نے مقابلہ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل عراقی جھنڈا بلند کیا اور خود کو بھی اس مقابلے کے لئے پیش کیا، اس نے بغیر کسی تیاری اور تربیت کے اس میں حصہ لیا اور پہلی پوزیشن لے لی، عراقی کھیلوں کی تاریخ میں اس کا نام (یونس البحری) جانا جاتا تھا، وہ اسی مقابلے کی نسبت سے تھا، اسے جرمن سفارتی پاسپورٹ دیا گیا تھا اور پھر عراقی پریس نے اس کی جغرافیائی مہم جوئی کے بارے میں بھی لکھا تھا۔
یونس البحری کی زندگی کی جو سب سے زیادہ دلچسپ بات رہی وہ اس کی شادیاں تھیں، جو قانونی طور پر 100 سے زائد تھیں، اور اس کے علاوہ بھی اس نے اپنے قیام میں جز وقتی کثیر شادیاں کی، اس کے تقریبا 360 بچے تھے، صرف اس نے انڈونیشیا کے قیام میں ہی 40 سے زائد شادیاں کی، یہ اپنے کئی بچوں کو جانتا بھی نہیں تھا اور ان کے نام بھی نہیں جانتا تھا، اس کی پہلی شادی موصل میں مدیحہ نامی خاتون سے ہوئی تھی، جس سے ایک بیٹی مونا یونس جو بغداد یونیورسٹی میں نفسیات میں ڈاکٹر رہیں، ایک بیٹا سعدی وکیل اور فقیہ کے طور پر مشہور ہوا، اس کے مزید بچوں میں معروف عراقی فنکار ہانی ہانی اور فلپائن میں بحری افواج کے کمانڈر رعد یونس باہری شامل ہیں۔ اس کا اپنا شادی کے بارے میں نقطہ نظر صرف یہ تھا کہ معروف اور امیر گھرانے میں شادی کی جائے، تاکہ اسے ان کی کفالت نہ کرنا پڑے اور وہ بہت زیادہ سفر کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ان کی کفالت یا اسے کوئی ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
وہ اپنی ازدواجی زندگی کا خاتمہ ان الفاظ کے ساتھ کرتا تھا، "الوداع، ہم دوبارہ مل سکتے ہیں یا نہیں، کیونکہ میں خدا کی وسیع زمین کا مسافر ہوں۔۔ "
ایک بار اس کے ساتھ عجیب مضحکہ خیز واقعہ ہوا کہ جب اس کا قیام فرانس میں تھا، تب فرانسیسی حکومت نے یونس البحری سے انکم ٹیکس کا مطالبہ کیا، اس وقت یونس البحری پیرس میں العرب اخبار شائع کر رہا تھا، اور اس سے فرانسیسی حکومت نے تین ملین فرانک ٹیکس کا مطالبہ کیا، اس وقت یونس البحری کو یہ پتہ چلا کہ فرانسیسی قانون ہر اس شخص کو ٹیکس سے استثنیٰ دیتا ہے جس کے بارہ سے زیادہ بچے ہوں۔ تب اس نے انہیں جواب بھیجا کہ اس کے بچے 12 سے زائد ہیں، فرانسیسی حکومت نے اس کے دعوی کے ثبوت مانگے، تب اس نے مع ثبوت 45 بچوں کے نام فراہم کئے، تب پیرس کی میونسپلٹی نے سنہء 1954 میں ان بچوں کو مختلف ممالک سے اکٹھا کیا اور چالیس دن تک ان کی میزبانی کی۔
میزبانی کی یہ تقریب ایک بین الاقوامی تقریب تھی اور پروفیسر محمد الطبیعی جنہوں نے اس جشن میں شرکت کے بعد اخیر ساع میگزین میں اس کے بارے میں فیچر بھی لکھا۔ اسی طرح دوسرا واقعہ انڈونیشیا کا کام کے دوران جب یہ ایک مذہبی مفتی کے طور پر عہدے پر تھا، انڈونیشیا کا ایک مقامی شہری اس کے پاس آیا، وہ اپنے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی کو لے کر آیا تھا، جس کی خواہش تھی کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، چونکہ وہ شخص بوڑھا اور عام صورت تھا، یونس البحری اس نے اسے سمجھایا کہ یہ اسلام کے مطابق جائز نہیں کہ تم اس جوان و کم عمر لڑکی سے اس بڑھاپے میں شادی کرو، اس شخص نے مفتی ہونے کی وجہ سے یونس البحری کی بات مان لی، مگر یونس البحری نے زیادتی یہ کی کہ خود اس لڑکی سے شادی کرلی۔
سنہء 1958 میں الرحاب محل کے قتل عام کے بعد عراق میں شاہی افراد کے ساتھ ابو غریب جیل میں یونس بحری کو بھی قید کیا گیا تھا، اس وقت عراقی حکام نے یونس بحری کے بیٹے میں سے ایک کو بغداد میں فوجی گورنر کے پاس بلایا، اس نے اپنے والد کی رہائی کے ہی خلاف احتجاج کیا، کیونکہ اس کے بیٹے کے خیال میں وہ غیر ذمہ دار، شادیاں کرنے کا شوقین اور متکبر انسان ہے، اس لئے ہمیشہ کے لیے قید یا مرنے کا مستحق ہے۔ یونس بحری نے 16 کتابیں لکھیں، جن میں (The British-Iraqi War)، (Seven Months in Qasim's Prisons)، (Hay Al Arab، Here is Berlin)۔ اور اس نے یادداشتیں بھی لکھی ہیں، بلکہ اس کی زندگی پر ادب میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے یونس بحری ہر ایک مقالہ بھی لکھا گیا تھا۔
جس کا عنوان تھا: (The Modern Sinbad) نازی جرمنی میں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برلن سے عرب ریڈیو پروپیگنڈے میں عراقی صحافی یونس بحری (1903-1979) کا کردار۔ یہ فیکلٹی آف آرٹس، Radboud University Nijmegen، Venray میں ماڈرن ہسٹری میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری کے لیے ایک مقالہ ہے، مورخہ 15 مارچ 2016 اور اسے طالب علم لوسیئن مارٹن نے حاصل کیا تھا۔ یونس بحری کی بیٹی پروفیسر ڈاکٹر مونا یونس باہری نے یونیورسٹی پیپرز (ادامت) کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں مصنف (اپنے والد) کی زندگی اور اس کی یاد داشتیں شامل ہیں، مونا یونس عراق میں کالج آف ایجوکیشن میں بطور پروفییسر رہی ہیں۔
یونس بحری ریڈیو میں پورے یورپ میں اپنے سیاسی تبصروں اعلی شخصیات پر تنقید کی وجہ سے بہت معروف رہا، عرب دنیا میں شہزادوں، بادشاہوں، لیڈروں اور شیخوں کے ساتھ بہترین تعلقات میں رہا، عرب دنیا میں اسے مارشل کا عہدہ بھی دیا گیا، شیخ زید بن سلطان نے انہیں دو اعزازات سے بھی نوازا۔ معروف مصری گلوکارہ ام کلثوم سے بہت دوستانہ رہا، یونس البحری نے اپنی زندگی میں مجموعی طور پر 22 حج بھی کئے۔ یونس بحری نے اپنے آخری ایام بغداد میں اپنے کزن صحافی نذر محمد ذکی (جو بیروت نیوز ایجنسی کے دفتر کے ڈائریکٹر تھے) کے گھر گزارے اور وہ 30 مئی 1979 کو بغداد کے سسٹرز ہسپتال میں انتقال کر گیا۔
اس کی موت کی وجہ ایک تیز رفتار کار سے ٹکر تھی، اسے الغزالی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، کیونکہ وہ غریب اور بے آسرا مر گیا تھا، اسے بغداد میونسپلٹی نے اپنے خرچ پر دفن کیا تھا، فرانس پریس اور رائٹرز نے ان کی موت کی خبر دی اور لبنانی اخبار النہار نے اسے اپنے صفحہ اول پر شائع کیا۔ یونس البحری کی یہ کہانی سچی ہے مگر یہ اتنی خیالی لگتی ہے کہ گویا عرب کی معروف داستان الف لیلہ کی ہزاروں راتوں میں سے ایک رات کی داستان ہو۔