Aab e Zam Zam (1)
آب زم زم (1)
جزائر عرب کے بارے میں محققین ارضیات و ماہر آثار قدیمہ کے ماہرین آج جان چکے ہیں کہ لاکھوں برس کی قدیم تہذیبوں کا گہوارہ یہ خطہ کبھی دریاؤں و سرسبزے کا شاہکار ہوتا تھا، مرور زمانہ نے اس خطے کو یہاں خشک پہاڑوں و صحرا میں بدل دیا، موضوع میرا اس وقت سعودی عرب میں ارض مقدسہ کعبتہ اللہ میں ایک تاریخی کنواں ہے، جو کبھی پہلے چشمہ ہوا کرتا تھا، یہ چشمہ جو آج کنویں کی شکل میں موجود ہے بلکہ آج یہ ایک بہترین Escade system water plant کی صورت میں انتہائی منظم صورت میں موجود ہے۔
یہ پروجیکٹ، جو "ESCADA" مانیٹرنگ اور کنٹرول سسٹم کے تابع ہے، اس کا مکمل انتظام ایک عمارت پر مشتمل ہے، جو 752 مربع میٹر کے رقبے پر واقع ہے، اور پانی کے انسانی صحت کے مطابق رکھنے کے لئے جدید ترین مشینوں اور آلات سے لیس لیبارٹری، ایک مخصوص تکنیکی عملے پر مشتمل ٹیم، خام پانی کے پمپس کے لیے ایک کمرے کے علاوہ جو رینفورسڈ کنکریٹ اور بلاکس سے بنے ہیں، اور اس میں تین واٹر پمپ شامل ہیں، دو روزانہ آپریشن کے لیے اور ایک بیک اپ کے لیے موجود ہے۔
"کڑی ریزروائر"، پروجیکٹ کے حصوں میں سے ایک، ایک پیوریفیکیشن اسٹیشن اور ایک پمپنگ اسٹیشن پر مشتمل ہے، جس میں 10، 000 کیوبک میٹر ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جبکہ مرکزی گودام کے طول و عرض میں بیالیس X اٹھاون میٹر ہے جس کی اونچائی 34 میٹر ہے۔ اور یہ 1 سے 5 ملین کیوبک میٹر پانی سٹوریج کی گنجائش کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ ایک جدید اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے خود کار نظام ہے، اس منصوبے کو "خودکار اسٹوریج " "ASRS" کہا جاتا ہے، اسوقت یہ دنیا کے جدید ترین بین الاقوامی سٹوریج سسٹمز کے مطابق مرکزی اسٹوریج کے اسٹینڈرڈ پر ہے۔
مکہ مکرمہ میں زمزم کے کنوئیں سے پانی نکلنے کا سلسلہ سینکڑوں برس سے جاری ہے۔ اسلامی مذہبی متون کے مطابق اس کی توجیہہ حضرت ابراہیم کے اپنے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ کر جانے کے بعد اسماعیلؑ کے ایڑیاں رگڑنے سے منسوب ہے، جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی زوجہ ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے اسماعیلؑ کو اس ویران بیابان میں چھوڑا تو بچے کو پیاس لگی۔ اس موقع پر ماں نے صفا و مروہ کے درمیان بے قراری میں دوڑ لگائی اور اپنے رب سے مدد مانگی۔
اللہ رب العزت نے جبریلؑ کو بھیجا، جنہوں نے زمین اور پہاڑ کو اپنے پر سے ضرب لگائی۔ اس ضرب کو "ہزمۃ جبریل" کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مکہ کے پڑوس میں واقع پہاڑوں کے دامنوں میں شگاف پڑ گئے۔ جس میں پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا، وہ بصورت چشمہ بہہ نکلا، جب وہاں پر آب زمزم کا چشمہ پھوٹا تو قریبی قبائل کے افراد نے یکے بعد دیگرے مکہ مکرمہ کو بسانا شرو ع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اپنے نبی حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو خانہ کعبہ تعمیر کرنیکا حکم دیا تاکہ یہ بستی لوگوں کیلئے جائے پناہ اور دارالامن بن جائے۔
جبکہ اس کی سائنسی توجیہ کے لئے آج کے موجود سعودی سائنٹسٹ Environmental engineering کے اسپیشلائزڈ ڈاکٹر انجینئر یحییٰ کوشک جو پانی کے امور کے پہلے سعودی ماہر اور زمزم کے کنوئیں کی تجدید کے منصوبے کے نگراں بھی ہیں۔ وہ زمزم کے سائنسی توجیہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا تعلق پانی کے مخصوص سمتوں سے معینہ چٹانوں کے ذریعے گزرنے سے ہے۔ کوئی بھی پانی جو ان مقامات سے پھوٹے گا اور کنویں کی گہرائی میں گرے گا، یہ پہاڑوں کے اندر جمع شدہ پانی تھا جو ایک چشمے کے صورت ابل پڑا۔
مذہبی متون کے مطابق بھی یہ شیرخوار حضرت اسماعیلؑ کے قدموں کے نیچے سے پانی پھوٹ پڑا تھا، یہ مقام آج کے موجود خانہ کعبہ سے 21 میٹر کے فاصلے پر ہے البتہ اُس وقت تک بیت اللہ تعمیر نہیں ہوا تھا۔ یہ پانی چٹانوں کے تین شگافوں کے ذریعے کنویں میں جمع ہوتا ہے، جو خانہ کعبہ کے نیچے اور صفا اور مروہ کی سمت پھیلی ہوئی ہیں، اور ایسا پانی جو پہاڑوں سے بہہ کر نکلے گا وہ آب زمزم جیسے ذائقے اور خصوصیات کا حامل ہوگا۔
ابتداء میں جو لوگ یہاں پہنچے ان کی خواہش یہی تھی کہ آب زمزم کے قریب انہیں رہائش حاصل ہو جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آبادیاں آبی ذخائر کے اطراف ہی بسا کرتی تھیں، اور یہ ان کی مجبوری ہوتی تھی، یہیں پر خانہ کعبہ بھی بنایا گیا اور رفتہ رفتہ یمن کے کئی قبائل نے اس طرف ہجرت کی، قبیلہ بنو خزاعہ سمیت یہاں کئی قبائل نے قبل از اسلام کعبہ کی ذمہ داریاں نبھائیں، پانچویں صدی عیسوی میں قصہ بن کلاب کے پاس یہ ذمہ داری آئی اور قریش کو کعبہ کی ذمہ داریاں مل گئیں۔
ایک اور مزے کی بات ہے کہ قریش کے دور میں ہی یہ چشمہ قریب قریب سوکھ گیا تھا، اس عہد میں پھر یہاں چونکہ آبادی موجود رہی تو زمزم کے بعد متبادل کنوئیں اور چشمے کھودے گئے، جن میں مررہ بن کعب بن لوئی کا کھودا ہوا کنواں (الاسراء کا کنواں)، اور ایک کنواں جو "الروا" کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، یہ تاریخ میں موجود ہے۔
اس دوران آب زمزم کے چشمے کو کئی بار کھودا گیا مگر اس سے پانی دریافت نہ ہو سکا کیونکہ درست سورس کی جگہ دریافت نہ ہو سکی تھی، پھر قریش کے اس وقت کے سردار عبد المطلب نے اس چشمے کو دوبارہ کھودا تھا، اسلامی روایات کے مطابق اس دفعہ عبدالمطلب کو خواب میں مخصوص مقام کی بشارت ہوئی تھی، اس دفعہ جب گہرائی میں کھدائی کی گئی تو پانی نکل آیا، اس کے بعد اسے کنویں کی شکل دے دی گئی اور آج تک یہ پانی جاری ہے۔
چونکہ مکہ میں قبل از اسلام بھی حج کی مذہبی رسومات قائم تھیں، اور تجارتی مرکز اور تجارتی میکوں کی وجہ سے ماہ ذی القعدہ سے ہی یہاں پر آس پاس کی ریاستوں کے تجارتی قافلے اور زائرین حجاج آتے تھے، اسلام سے قبل قریش کے پاس کعبہ کی ذمہ داری تھی اس عہد سے خاندان قریش یہ خدمات انجام دیتا رہا، حتیٰ کہ قریب از اسلام بھی حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا انجام دیا کرتے تھے۔ (موجود عہد میں آب زمزم کے حوض کا نام انہی کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے)
اسلام آنے کے بعد بھی حج کا عمل اسلام کا حصہ ہی نہیں بلکہ پانچواں رکن بن گیا، اسلام کے بعد مسلم خلفائے اور بعد میں آنے والے سلاطین کے ادوار میں بھی کعبہ کی خدمت ہمیشہ سلاطین کی طرف سے جاری رہی اور کسی نہ کسی صورت یہ مسلم سلاطین کی ایک اہم ذمہ داری رہی، قریب تمام ادوار میں ایسا ہی رہا، لیکن سعودی ریاست کے عہد میں آب زمزم کے کنوؤں کی عمارت نہایت خوبصورت اور موزوں بنائی گئی ہے۔
زائرین کو آب زمزم فراہم کرنے کے تمام انتظامات کئے گئے، حالیہ سعودی ریاست سے پہلے بھی کعبہ میں باقاعدہ الزمازمہ کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا جو 10 افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان کا تقرر انتخاب سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ شیخ الزمازمہ کے معاون و مددگار ہوا کرتے تھے۔ شیخ الزمازمہ زمزم کے کنوئیں پر پانی نکالنے والوں کے شیخ کا تقرر کرتا تھا۔ اسے شیخ السقاۃ کہا جاتا تھا۔ شیخ الزمازمہ کو اس کنبہ کا بزرگ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کرتے اور ایک دوسرے کے احوال و کوائف دریافت کرتے اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں تعاون پیش کرتے تھے۔
شادی بیاہ، عیدین اور مختلف سماجی خوشیوں میں جمع ہوتے اور شیخ الزمازمہ جھگڑے بھی طے کیا کرتا تھا۔ ہر زمزمی خدمتگاہ کیلئے حرم میں ایک کمرہ ہوتا تھا، جہاں وہ اپنے برتن رکھا کرتے تھے۔ گھڑے، مٹکے ہوتے تھے۔ کمبل، چٹائی اور پیتل کے کٹورے ہوتے تھے۔ جن پر قرآنی آیات منقش ہوتی تھیں۔ زمزم سقے لایا کرتے تھے۔ زمزم کے کنویں سے مشک کے ذریعے زمزمی کے کمرہ پر پہنچایا کرتے تھے۔ یہ کام حج کے وقت فجر کی نماز کے بعد انجام دیا جاتا تھا، پانی ڈول سے نکالا جاتا تھا۔