Water Treatment Plants, Hukumati Idaron Ki Nakami Ka Aaina
واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، حکومتی اداروں کی ناکامی کا آئینہ

زیر زمین پانی کا کڑوا اور کھارا پن ہونا ایک ایسا المیہ جو ہم سب آنکھیں بند کرکے دیکھ رہےہیں جی ہاں میری مراد وہ سرکاری ادارے جو اس کے ذمّہ دار ہیں ان کا کردار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
جہاں جہاں انڈسٹریل ایریا ہے وہاں پر زیر زمین پانی کڑوا اور آلودہ ہوچکا ہے اور مزید ہو رہا ہے ادارے موجود ہیں آخر یہ سب کچھ کیوں ایسا ہو رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتیں ہیں۔ سب سے بڑی وجہ سرکاری اداروں کی نااہلی اور کرپشن جو اس پورے نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکی ہے۔ قومی مفادات سے پہلے انفرادی سوچ نے ہمیں ڈبو دیا ہے۔
پانی زندگی کی بنیاد ہے، مگر افسوس کہ پاکستان میں یہی زندگی کا سرچشمہ زہر بن چکا ہے۔
ہمارے شہروں اور صنعتی علاقوں میں آلودہ پانی کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے بنائے گئے حکومتی منصوبے ناکامی کی داستان بن چکے ہیں۔ اربوں روپے کے منصوبے کاغذوں میں کامیاب، مگر زمین پر بدترین ناکامی کی مثالیں ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتوں کے پھیلاؤ کے ساتھ صاف پانی کی فراہمی ایک نازک مسئلہ بن چکا ہے۔ حکومت نے مختلف شہروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، فلٹریشن پلانٹس اور سیوریج ٹریٹمنٹ یونٹس کے قیام کے منصوبے شروع کیے تاکہ شہریوں کو آلودگی سے پاک پانی فراہم کیا جا سکے۔ مگر عملی طور پر یہ پلانٹس یا تو بند پڑے ہیں یا غیر فعال مشینری کا ڈھیر بن چکے ہیں اور بعض تو کبھی مکمل ہی نہیں ہوئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ صاف پانی کے بجائے شہری نکاسی آب کے نالوں اور زہریلے مادوں سے ملا ہوا پانی پینے پر مجبور ہیں۔
سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں اربوں روپے کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں مگر نتیجہ صفر اس کی بڑی وجہ سرکاری اداروں کی عدم دلچسپی۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں پچھلے دس برسوں کے دوران واٹر ٹریٹمنٹ پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ لیکن ان منصوبوں کا حال مایوس کن ہے۔
لاہور میں واسا (WASA) کے زیر انتظام کئی ٹریٹمنٹ پلانٹس مشینوں کے پرزے خراب ہونے کے باعث بند ہیں۔ کراچی میں کئی یونٹس مکمل ہونے کے باوجود کام نہیں کر رہے۔ جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ میں واٹر سپلائی اسکیمیں ناقص میٹریل کے باعث چند ماہ میں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی اور غیر تربیت یافتہ عملہ واٹر ٹریٹمنٹ سسٹم کو مکمل طور پر ناکام بنا دیتا ہے۔
واٹر ٹریٹمنٹ کا نظام واسا، ٹی ایم ایز، لوکل گورنمنٹ اور انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مگر ان اداروں میں نہ کوآرڈینیشن ہے، نہ پلاننگ اور نہ ہی احتساب۔ واسا کے پاس جدید لیبارٹریز نہیں۔ انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ صرف نوٹس جاری کرنے تک محدود ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے پاس فنڈز نہ ہونے کا بہانہ تیار رہتا ہے اور سیاست دان ان منصوبوں کو صرف فیتہ کاٹنے کی حد تک یاد رکھتے ہیں۔
یوں صاف پانی کے منصوبے کاغذی فائلوں اور افتتاحی تختیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ نتائج کے طور عوام زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی ناکامی نے عوام کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ جس سے آبی حیات بھی متاثر ہوتی جارہی ہے۔ شہروں میں نلکوں سے بدبو دار، نمکین اور زنگ آلود پانی آ رہا ہے۔
دیہاتوں میں نکاسی آب کے جوہڑ ہی پینے کے پانی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں گردے، جگر اور آنتوں کی بیماریوں کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ آلودہ پانی سے بچوں کی اموات اور حاملہ خواتین کی پیچیدگیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسی ریاست میں ہو رہا ہے جو خود کو اسلامی فلاحی ریاست کہتی ہے۔ ہر حکومت اپنے منشور میں صاف پانی کی فراہمی کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرتی ہے۔ لیکن زمینی حقیقت کچھ یوں ہے:
"صاف پانی اسکیم" کے نام پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے، مگر اکثر فلٹریشن پلانٹس بند پڑے ہیں۔
اوور بلنگ، ناقص انتظام اور کرپشن نے نظام تباہ کر دیا ہے۔
کئی علاقوں میں شہریوں نے اپنے خرچے پر فلٹریشن یونٹس لگائے ہیں
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پینے کے پانی میں ٹوٹل ڈیزالو سالڈز (TDS) 500 ppm سے کم ہونے چاہئیں۔
پاکستان کے بیشتر شہروں میں یہ 1500 سے 2500 ppm تک پہنچ چکا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتی واٹر ٹریٹمنٹ سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ صاف پانی بنیادی انسانی حق ہے، مگر پاکستان میں یہ حق ایک عیاشی بنتا جا رہا ہے۔ حکومتی ادارے اپنی نااہلی، بدعنوانی اور بے حسی کے باعث عوام کو زہر پینے پر مجبور کر چکے ہیں۔
اگر اب بھی اصلاح احوال نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں صرف قحط نہیں، بلکہ آلودہ پانی سے ہونے والی اموات سب سے بڑا قومی المیہ بن جائیگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟

