Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Malik Asad Jootah/
  4. Barzakhi Zindagi Aur Qabar Ke Azab o Aram

Barzakhi Zindagi Aur Qabar Ke Azab o Aram

برزخی زندگی اور قبر کے عذاب وآرام

انسانی زندگی تین مراحل پر مشتمل ہے۔ آج ہم دوسرے مرحلے کا جائزہ لیں گے۔ جب انسان مر جاتا ہے اسکے بعد جو مرحلہ آتا ہے اسے برزخی مرحلہ کہتے ہیں۔ مطلب جو قبر سے لیکر قیامت تک دورانیہ ہے اسے برزخی زمانہ کہتے ہیں۔ برزخ میں بہت سے لوگ اچھے اعمال والے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ مشکل تکلیف والے ہوتے ہیں۔ جو کہ قبر کے عذاب سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں ان کے ماننے والے عموماََ میت کو دفنایا ہی کرتے ہیں اس لحاظ سے بھی برزخ کی تکالیف کو قبر ہی کے عنوان سے ذکر دیا جاتا ہے۔

اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس کو قبر نہیں نصیب ہوتی ہو وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ درندوں کے پیٹوں سے اس سمندر کی تہہ سے ذرات کو جمع فرمائے اور برزخ زندگی دے کر ان کو عذاب دے دے۔ برزخی زندگی میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک تو مومنین صالحین اور دوسرے کافرین یا منافقین ہیں۔ مومنین صالحین وہ لوگ ہیں جن کے اعمال اچھے ہوں گے ان کے لئے قبر ایک انتظار گاہ ہے۔

یہ حضرات تو قیامت تک قبر یعنی برزخی زندگی میں سکون سے رہتے ہیں۔ ان کے لئے قبر کی زندگی انتہائی آسان ہے اور اب دوسری طرف وہ منافقین اور کافرین آتے ہیں جن کے اعمال اچھے نہیں ہیں اور ان کے لیے قبر کی زندگی حوالہ جیسی ہے۔ جس میں عذاب ہی عذاب ہے۔ جو لوگ برے اعمال اور کبیرہ گناہوں میں لگے رہتے ہیں ان کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے۔ لہٰذا مومنین بندے بھی قبر کے عذاب سے اللہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس حوالے سے

"کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک دن ایک یہودی عورت آئی اور (اثناء گفتگو میں ) اس نے حضرت عائشہ سے کہا کہ اللہ تمہیں قبر کے عذاب سے پناہ میں رکھے (کیونکہ یہ بات ایک غیر مسلم عورت نے کہی تھی اس لیے) حضرت عائشہؓ نے (اس کا اعتبار نہ کیا) اور رسول ﷺ سے عذاب قبر کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں قبر کا عذاب برحق ہے (کافروں اور نافرمانوں کو ہوتا ہے) حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے انہیں دیکھا کہ رسول ﷺ نے کوئی نماز پڑھی ہو اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا نہ کی ہو کہ عذاب قبر سے پناہ میں رکھے۔ " (مشکوۃالمصابیح، ص 2۵، عنالبخریومسلم)

حضور اقدس ﷺ امت کو تعلیم دینے کے بعد ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ کی دعا مانگتے تھے۔

حدیثوں میں صحیح طریقے سے بتا دیا گیا ہے کہ مومنین صالحین قبر میں آرام و سکون سے رہتے ہیں۔ ان کی قبر کو روشن فرما دیا جاتا ہے ان کے لیے ان کی قبر کو کشادہ بنا دیا جاتا ہے۔ اور ان کے لئے قبر میں جنت کا بستر بچھا دیا جاتا ہے۔ اور جنت کے کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں۔ اور ان کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاکہ مومنین صالحین کو اس کی خوشبو آتی رہے اور کافرین اور بدکاروں کی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ ان کے لئے سانپوں کا مسلط ہونا، نیچے آگ کا بچھا دیا جانا، گرزوں سے مارا جانا۔ دوزخ کا دروازہ قبر کی طرف کھول دیا جاتا ہے تاکہ وہاں کی سخت اور گرم ہوا آتی رہے۔

قبر کے عذاب اور تکلیف کی خبر انبیاۓ سابقینؑ نے بھی دی ہیں۔

یہودی حضرت موسیٰؑ سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے دین کو انہوں نے بدل دیا ہے مگر کچھ باتیں جو ان کی تعلیمات سے یہود کے پاس رہ گیا ان میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ نافرمانوں کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ جو یہودی عورت حضرت عائشہؓ کے پاس آئی اور اس نے اپنے مذہبی معلومات کی بنیاد پر قبر کے عذاب کا تذکرہ کیا۔ حضرت عائشہؓ نے حضور اقدس ﷺ سے اس بات کی تصدیق چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا نافرمانوں کو قبر میں عذاب ہونے کا عقیدہ حق ہے۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مومنین میت کو قبر میں داخل کیا جاتا تو اس کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے سورج چھپ رہا ہو۔ جب اس کی روح قبر میں واپس لوٹائی جاتی ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے۔ اور فرشتوں سے کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھتا ہوں (ابن ماجہ) گویا وہ اس وقت اپنے آپ کو دنیا میں تصور کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا کہ سوال و جواب کو رہنے دو مجھے فرض ادا کرنا ہے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات وہی کرے گا جو دنیا میں نماز کا پابند تھا اور اس کو ہر وقت نماز کا خیال لگا رہتا تھا۔

اس سے بے نمازی سبق حاصل کریں اور اپنے حال کا اندازہ لگائیں اور اس بات کو خود سوچیں کہ جب اچانک سوال ہوگا تو کیسی پریشانی ہوگی؟

جس نے نماز اور روزہ کو اپنی عادت بنا لیا مگر اس شخص میں سچائی اور دیانتداری نہیں ہے تو یہ سب اس کے کچھ کام نہیں آنا۔

اگر ہماری نماز میں خشوع و خضوع نہیں تو اس نماز کو ہم عادت تو کہہ سکتے ہیں مگر عبادت نہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی نیک عمل ہو جو ہم کرتے ہیں مگر اس میں رضائے الٰہی اور تقویٰ نہ ہو ایسے اعمال کے متعلق اللہ پاک فرماتے ہیں۔

"روزِ قیامت یہ سب اعمال تمہارے منہ پہ مار دیے جائیں گے۔ "

تو ہمیں چاہیے کی ہم جو بھی عمل کریں وہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کریں۔

حضرت عمر سے حضور ﷺ نے فرمایا اے عمر "اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ تم کو قبر میں رکھ دیے جاؤ گے پھر تمہارے پاس منکر نکیر آئینگے جن کا رنگ سیاہ ہوگا اور بال اس قدر لمبے ہوں گے زمین پر گھسیٹ رہے ہونگے، ان کی آواز سخت گرج کی طرح اور آنکھیں اچک لینے والی بجلی کی طرح ہوں گی، دانت اتنے لمبے ہوں گے کہ اس سے زمین کھود رہے ہوں گے وہ تم کو ہلا ڈالیں گے اور خوف زدہ کریں گے "یہ سن کر حضرت عمر نے عرض کیا یارسول اللہ کیا اس وقت میرے ہوش و حواس اس طرح کے ہوں گے جیسے اس وقت ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (تم اس طرح ہوش میں ہوں گے جیسا کہ اب ہو) حضرت عمر میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں ان سے نمٹ لوں گا۔

یہ ہوش و حواس کی درستگی پختہ ایمان اور اعمال صالح کی وجہ سے ہوگی اگر عمل صحیح نہیں سوال و جواب کے ڈر سے ہوش کیوں کر ٹھکانے رہیں گے؟

غور کرنے کی بات ہے کہ دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ یہاں کی زندگی بہت مختصر ہے۔ اور یہاں آرام سکون بھی معمولی ہے اور جو تکلیفیں ہیں وہ بھی قابل برداشت ہیں۔ اس زندگی کے بعد برزخی زندگی ہے۔ (مطلب قبر سے لیکر قیامت تک کی جو زندگی ہے) جہاں ہم نے سیکڑوں سال رہنا ہے جو ہماری زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے۔ اگر اعمال اچھے نہ ہوئے لوگوں کے حقوق دبا کر اور اس کے علاوہ حقوق چھوڑ کر قبر میں پہنچے بداعمالی کی وجہ سے عذاب ہونے لگا تو ہمارا کیا حال بنے گا؟

ہم سب کو موت کی فکر کرنا لازم ہے اور ہمیں اپنی آخرت کی زندگی کو بہتر کرنا لازم ہے۔ کیوں کہ اگر ہماری دنیاوی زندگی اچھی ہوگی تو یقیناََ ہماری آخرت اور برزخی زندگی بھی اچھی ہوگی۔

اللّه پاک ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق دے اور قبر کی زندگی کو آسان فرماۓ۔

Check Also

Azmat Ki Masnad

By Rao Manzar Hayat