Gunehgar Aap Ke Peti Bhai Hain
گنہگار آپ کے پیٹی بھائی ہیں
انسانی سوچ اور نیت کو صرف اپنے تک محدود رکھ کر ستارالعیوب نے انسان کو اشارہ دیا ہے کہ کچھ معاملات صرف اسکے اور انسان کے درمیان ہی رہنے چاہیں۔ زندگی میں انسان سے اکثر کچھ ایسا سرزد ہوجاتا ہے جو وہ کسی دوسرے انسان کو بتا کر بھی سمجھا نہیں پاتا۔
اسلیے جب کبھی زندگی میں ایسا مقام آ جائے تو اسی عیبوں کا پردہ رکھنے والے رحمن و رحیم سےرجوع کریں، اور کسی انسان سے معافی، تلافی، یا دلجوئی کی امید نہ کریں۔ اگر آپ کی غلطی یا خطا کسی حقوق العباد کے زمرے میں آتی ہے تو جسکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس پر کوئی احسان کرکے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر آپ دل سے نادم ہیں تو آپکی توبہ خؤد بخود عرشوں کے پائے سے جا ٹکرائے گی۔
اگر آپ کا اعتراف گناہ کسی کی تسلی و تشفی بن سکتا ہے تو ضرور کریں، اور پورے دل اور خلوص سے اپنی غلطی کا اعتراف کریں، کسی اگر مگر، چونکہ چناچہ کے بغیر، مگر اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ کا انکشاف کسی کے لیے زندگی بھر کی اذیت بن سکتا ہے، تو اسکو بھی اللہ تعالی کی رحمت پر چھوڑ دیں۔ اور خاموشی سے اپنی توبہ پر عمل کریں۔
ایسے ہی اگر آپ کسی کے کسی برے عمل کے شاہد ہوں تو کوشش کریں کہ اسکا پردہ ہی رہنے دیں۔ سوائے اسکے کہ اگر دوسرا ایسی غلطی دوبارہ کرنے جا رہا ہو، یا اسکا گناہ معاشرے میں ھیجان برپا کر رہا ہوں، اس صورت میں جو مناسب جگہ ہو وہاں اسکا اظہار کریں۔ مگر اگر کسی کی کوئی وقتی غلطی، گناہ، خطا یا کمزوری آپ کے علم میں آ ہی گئی ہے تو اس کو پردے میں ہی رہنے دیں، اور معاملہ اس کے رب کے سپرد کردیں، جو انصاف والا بھی ہے اور پردہ رکھنے والا بھی۔
یاد رکھیں! اربوں انسانوں اور کھربوں دنیاؤں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا رب آپ سے صرف آپ کے اپنے متعلق جاننے کا خواہشمند ہے۔ آپ خؤد کیا کرتے ہیں، اور کیسے اس عارضی وقفے والی زندگی کو گذار کر جاتےہیں یہ اسکے اور آپ کے درمیان وجہ وجود ہے، اور شائد آخری مقصد بھی، کم از کم آپ کی ہستی تک۔ دوسرے انسان، دوسری دنیائیں، یا آپ کی زندگی کے علاوہ دوسرے زمانوں میں کیا ہوتا آیا ہے، اور کیا ہوتا رہے گا، اسکا نہ آپ سے سوال ہونا بنتا ہے اور نہ ہی یہ رب دلیل و منطق کی سنت ہے کہ وہ غیر مکلف کو مکلف گردانے۔
آخری بات، انسانی رویوں کے حوالے سے، یہ کہ جب ہم کسی گنہگار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے فخر و غرور کا احساس ہوتا ہے۔ ایک کہ وہ گنہکار کوئی اور ہے ہم نہیں، اور دوسرا یہ کہ ہمیں اس کے اس گناہ کی وجہ سے اس پر یہ قدرت حاصل ہو چکی ہے کہ ہم اسکو دی جانے والی سزا کے عمل میں شریک ہوں۔ یہ دونوں حق اصل میں صرف اس زات کبریا کے ہیں، جو خود ہر خطا سے پاک ہے، اور جو اس گنہگار بندے اور اس دنیا، دونوں کا مالک ہے۔ کبھی اپنے آپ کو ان حقوق کا مالک مت سمجھیے۔ ایک قاضی خدا کا قانون زمین پر لاگو کرنے پر مامور ہے، مگر خود اس قانون کا مالک نہیں ہے۔ ہم عام انسان تو اس پر مامور بھی نہیں ہیں۔ ہمیں تو صرف عبرت حاصل کرنے تک کا اختیار ہے۔
خطاکاروں اور پاکبازوں کا رب ایک ہی ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کو اپنے پیٹی بھائی سمجھ کر خدا سے انکی سفارش کرتے رہا کیجیے، ورنہ تو ہم اپنی کرپٹ، اور انتہائی جاہل پولیس سے بھی گئے گذرے ہو جائیں گے، جو کم از کم اپنے پیٹی بھائی کو سزا سے بچانے کی خاطر اپنی نوکری خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔ یاد رکھیے! سب انسان آپ کے پیٹی بھائی ہیں، انکو سزا سے بچائیے۔ انکی سفارش کیجیے۔