American Gangster
امریکن گینگسٹر

ویسے تو ہالی ووڈ کی ایک سے بڑ ھ ایک سپر ہٹ اور یادگار پروڈکشنز ہیں لیکن امریکن گینگسٹر ہالی ووڈ کی ایک منفرد اور مشہور زمانہ فلم ہے۔ پکچر کے ہدایت کار رڈلی اسکاٹ نے اس پراجیکٹ پر کافی محنت کی ہے۔ یہ فلم 2007 میں ریلیز ہوئی لیکن یہ 1970 کے امریکہ کے ہارلم میں ایک بدنام زمانہ ہیروئن فروش فرانک لوکس کی زندگی کی سنیماٹوگرافی ہے۔ اس فلم میں ڈینزل واشنگٹن نے لوکس کا کردار ادا کیا ہے۔ ذینزل واشنگٹن کو کو ن نہیں جانتا۔ ان کے کریڈٹ پر بےشمار فلمیں ہیں جو آج تک اپنا اثر رکھتی ہیں۔ واشنگٹن کے مد مقابل رسل کرو نے رچی رابٹس کا کردار نبھایا ہے۔ رچی رابٹس ایک بے باک تفتیشی افسر ہے جو لوکس کے منشیات کے امپائر کو توڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کی دلکش کہانی کے ذریعے یہ فلم عزت نفس، اخلاقیات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور منظم جرائم کے درمیان کش مکش اور کاروائیوں کی عکاس ہے۔
فلم کو سمجھنے کے لیے پس منظر میں جھانکتے ہیں۔ کہانی 1968 میں شروع ہوتی ہےجب ہارلم ثقافتی اظہار اور جرائم کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ ایلس ورتھ "بمپی" جانسن ایک مافیا باس کی موت ایک پاور ویکیوم پیدا کرتی ہے جسے فرانک لوکس بھرنے کے لیے پہلے ہی پر تولنے کے لیے تیار ہے۔ جانسن کی موت لوکس کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوتی ہے۔ لوکس جانسن کا دائیں بازو تھا۔ بمپی کے جانے کے بعدفرانک اس موقع کو اپنے آپ کو ہیروئن کی تجارت میں ایک اہم شخصیت کے طور پر قائم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
لوکس کا عروج اس کے ہیروئن اسمگلنگ کے نئے طریقے سے نمایاں ہوتا ہے۔ اپنے پیش روؤں کے برعکس جو اطالوی مافیا کے کنٹرول میں موجود روٹوں پر انحصار کرتے تھے، لوکس اپنے پروڈکٹ کو براہ راست جنوب مشرقی ایشیا سے حاصل کرتا ہے۔ وہ واپس آنے والے ویتنام جنگ کے فوجیوں کو بے خبر گدھوں کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ وہ ہیروئن کو امریکہ منتقل کریں۔ یہ طریقہ نہ صرف خطرے کو کم کرتا ہے بلکہ اسے اپنے حریفوں سے زیادہ خالص اور سستی مصنوعات پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ اپنی ہیروئن کو "بلو میجک" کا نام دیتا ہے، جو جلد ہی اعلیٰ معیار اور سستی قیمت کا مترادف بن جاتا ہے۔
جیسے جیسے لوکس کا امپائر بڑھتا ہے وہ ایک کم پروفائل طرز زندگی اختیار کرتا ہے جو دوسرے گینگسٹرز کی شاندار نمائشوں سے بالکل متضاد ہوتی ہے۔ وہ محتاط لباس پہنتا ہے اور جائز کاروباری فرنٹس کے ذریعے کام کرتا ہے جبکہ ساتھ ہی ایک وسیع منشیات کی کارروائی بھی چلا رہا ہے۔ یہ دوہرا پن لوکس کی عزت نفس کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ نہ صرف دولت بلکہ کمیونٹی میں عزت بھی چاہتا ہے۔
تاہم عزت نفس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ فلم میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے جیسے لوکس طاقت کو مستحکم کرتا ہے اسے نکی بارنز جیسے حریفوں کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکی لوکس کی مصنوعات کو کمزور کرتا ہے اور اسی برانڈ کے نام سے بیچتے ہیں۔ یہ مقابلہ مسابقت اور پھر تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ایک واضح یاد دہانی ہے کہ منظم جرائم کی دنیا میں طاقت اکثر خوف اور بربریت کے ذریعے برقرار رکھی جاتی ہے۔ رڈلی سکاٹ کی یہ فلم اس تشدد کو دکھانے سے نہیں کتراتی۔ ایک خاص طور پر بے رحمانہ منظر میں لوکس ایک حریف گینگ کے رکن کو بے دردی سے قتل کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس سے وہ خوف و ہراس کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرتا ہے۔
ایک طرف لوکس کی کہانی ہے تو دوسری طرف رچی رابٹس کی کہانی بھی چل رہی ہوتی ہے۔ رابٹس ایک ایماندار تفتیشی افسر ہے جو ایک بدعنوان پولیس فورس میں کام کر رہا ہے۔ محکمے میں افسران منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رابٹس کی دیانتداری اسے اپنے ساتھیوں سے ممتاز کرتی ہے جو اکثر رشوت اور بدعنوانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ اخلاقی قوت اسے اپنے محکمے میں باہر نکال دیتی ہے جب وہ تقریباً 1 ملین ڈالر واپس کر دیتا ہے۔ یہ رقم اسے ایک مافیا باس کی گاڑی میں ملا تھا۔ ایسا کرنے پر اسے ساتھی افسران کی جانب سے بے عزتی اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رابٹس کی ذاتی زندگی بھی اتنی ہی بے چین ہے۔ قانون نافذ کرنے میں اس کی لگن اس کی شادی پر دباؤ ڈالتی ہے جس سے طلاق کے مقدمات شروع ہوجاتے ہیں۔ مسائل کا شکار نجی زندگی اس کی پروفیشنل زندگی کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار ہونے کے ناطے رابٹس اپنے مشن کے لیے پرعزم رہتا ہے۔ ساری کہانی میں رابٹس کا فرانک لوکس جیسے منشیات کے بادشاہوں کو ختم کرنا ہی واحد مقصد ہے۔ رابٹس کی تحقیق اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ ایک اہم باکسنگ میچ میں ایک نامعلوم شخصیت (لوکس)کو دیکھتا ہے۔ لوکس کو اطالوی مافیا باسز سے بھی بہتر نشستیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ چیز چونکا دینے والی ہے۔
جب رابٹس لوکس کے حلقے میں مخبروں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اس کے خلاف ثبوت جمع کر سکیں۔ یہ عمل فلم میں تناؤ بڑھا دیتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کہانی کی پیک ہے۔ دوران تفتیش ایک مخبر جمی سامنے آتا ہے۔ جمی فرانک کا کزن ہے جو لوکس کی کارروائیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جیسے جیسے رابٹس لوکس کے قریب پہنچتا ہے کہانی سنسنی خیز ہو جاتی ہے۔ یہاں رائٹر یہ بتانا چاہتا ہے کہ دونوں مرد جانتے ہیں کہ ان کی تقدیریں اس خطرناک کھیل میں جڑی ہوئی ہیں۔ دونوں جانتے ہیں کہ لوکس بقا کے لیے لڑ رہا ہے اور رابٹس انصاف اور قانون پر عملدرآمد کے لیے۔ لوکس معاشرے کے ناسور کا نمائندہ ہے جبکہ رابٹس ریاست کا۔ فلم میں فرد واحد اور معاشرہ آمنے سامنے ہے۔
فلم نجات اور اخلاقیات پر اہم سوالات اٹھاتی ہيں۔ کیا کوئی واقعی اپنی سنگین جرائم کے بعد نجات پا سکتا ہے؟ کیا چوروں، منشیات سمگلنگ کرنے والوں کی کوئی عزت ہوتی ہے؟ کیا ریاست اپنی رٹ ہمیشہ بحال رکھ سکتی ہے؟ کیا ریاستی نمائندے ریاست کے اصلی محافظ ہوتے ہیں؟
آخر میں امریکن گینگسٹر ایک طاقتور داستان بن کر ابھرتی ہے جو جرم، اخلاقیات اور انسانی عزت نفس کی پیچیدگیوں میں غوطہ زن ہے۔ جاندار کہانی، مرکزی خیال اور کرداروں کے ساتھ یہ فلم ناظرین کو جرم کو فروغ دینے والی سماجی حالات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ پولیس کی بدعنوانی پر بھی تنقید کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کئی ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو قانون کے نفاذ میں بجائے سہولت کے رکاوٹ بنتے ہیں۔ ہمارے اداروں میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری پولیس میں تفتیش کا عمل کئی رکاوٹوں کا شکار ہے۔ ہمارے تفتیشی طریقہ کار آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے اصولوں پر چل رہےہیں۔ رابٹس جیسے کردار ہمارے معاشرے کی اشد ضرورت ہیں۔