Aik Lamha Jo Kaya Palat De
ایک لمحہ جو کایا پلٹ دے
سعودیہ میں ملازمت کا پہلا سال تھا، فیملی ابھی پاکستان میں تھی۔ شام کو مصروفیت نہ تھی (کہ سوشل میڈیا نہیں تھا)۔ ایک اور دوست کے ساتھ ہیلتھ کلب جوائن کر لیا، جہاں سوئمنگ پول بھی تھا۔ زندگی میں سارا کچھ خود سیکھنے والوں کے لیے کوئی بھی چیز مشکل نہیں ہوتی۔ کچھ انٹرنیٹ سے دیکھا (جی انٹرنیٹ تھا) اور کچھ کتابوں سے اور دوستوں سے مدد لی اور لگا کہ بس سوئمنگ آ گئی۔ پانی میں اترنا ہے، دو ہاتھ ادھر اور دو پاؤں ادھر۔ بس۔
خیر سوئمنگ کاسٹیوم، لوشن، تولیہ بیک پیک میں ڈالے ہم پہلے روز کلب پہنچے اور چھلانگ مار دی۔ تھوڑی دیر کچھ سمجھ نہ آیا۔ اگر کچھ آیا بھی تو یہ کہ ساری زندگی کتابی علم اور بعد ازاں کمپیوٹر کا علم حاصل کر لینے سے باقی عملی کام ہرگز آسان نہیں ہو جاتے۔ غوطے کھا کھا کر بالآخر پول کا کنارہ ہاتھ آیا اور سانس میں سانس آئی تو ارد گرد دیکھا۔ میرا دوست تھوڑی دور دوسرے کنارے سے اسی پوز میں لٹکا ہوا تھا جیسے میں۔
آپ میں سے جن لوگوں نے برسات میں کسی گاؤں کے چھپڑ (جوہڑ) کا منظر دیکھا ہو تو انکو علم ہو گا کہ پانی میں کناروں سے لگے مینڈکوں کی صرف ناک اور آنکھیں باہر نظر آتی ہیں، ہم پول کے کنارے بالکل ویسے ہی لٹکے ہوئے تھے۔ کیونکہ پول میں پانی قد آدم سے زیادہ تھا، اور ہمارے پاؤں سطح تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔ (پاکستان میں اکثر سوئمنگ پولز میں چار فٹ گہرائی جو بچوں کے لیے ہوتی ہے، وہ ان کلب پولز میں نہیں تھی)۔
اگلے کچھ ہفتے میں نے اور میرے دوست نے سوئمنگ کی بجائے پول کے کنارے ٹانگیں پسارے سعودی بچوں کو مینڈک سمجھ کر انجوائے کرتے گزاری جو ہمیں جلانے کو "ادھر ڈوبے ادھر نکلے" کا عملی کام کر رہے تھے۔ اسکے بعد کئی سال گزر گئے۔ تیراکی سیکھنا ایک فضول کام سمجھ کر ترک کر دیا۔ خود کو سمجھا لیا کہ اگر سونامی آگیا تو بہت سے تیراک بھی ڈوب ہی جائیں گے۔ اور ویسے بھی سنا یہی ہے کہ ہمیشہ اچھے تیراک ہی ڈوبا کرتے ہیں۔ جب تک ہم پانی سے ڈرتے رہیں گے، ایسا خطرہ ہمارے قریب کیوں آنے لگا۔
سعودیہ سے واپسی سے ایک ڈیڑھ سال پہلے میں ایک کمپاؤنڈ میں شفٹ ہوا تو وہاں کا سوئمنگ پول مجھے اس لحاظ سے پسند آیا کہ شام کو وہاں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ویسے بھی کمپاؤنڈ خاصا پرانا تھا، جہاں گن کر تیس بتیس گھر تھے۔ چار گھروں میں پائلٹس کسی ائیر لائن میں کام کرتے تھے، اس لیے کم ہی ادھر رہتے تھے۔ کچھ گھروں میں سعودیوں نے اپنی پہلی، دوسری بیوی کو رکھا ہوا تھا، جن کی باری وہ تیسری، چوتھی کو دے رہے تھے۔
اکا دکا گھروں میں شام کو بچے کھیلتے تھے، اور اوون میں کھانا گرم کرنے کی نوبت آتی تھی۔ ایسے میں سوئمنگ پول کا پانی صاف شفاف رہتا اور کمپاؤنڈ کے ملازمین جو بنگلہ دیشی تھے، سوئمنگ پول کے اردگرد گرنے والے پتے چننے کے لیے آتے جاتے رہتے تھے۔ اس پول کی خاص خوبی یہ تھی کہ ایک سائیڈ پر بچوں کے لیے چار فٹ گہرائی کا بندوبست تھا، جہاں پر میں ٹانگیں پھیلا کر پلسیٹے مار سکتا تھا اور غوطے کھانے کی ضرورت بھی نہیں رہتی تھی۔
دوستو! تنہائی، پول کا شفاف پانی، کمپاؤنڈ کے اونچے لمبے درختوں کے پھیلتے سایوں سے جھانکتی شام ایسی کشش تھے کہ میں ہفتے میں وقت نکال کر تین چار شامیں ادھر گزارنے لگا۔ رفتہ رفتہ میں نے مینڈک تیراکی والے پرانے زمانے کو یاد کرتے ہوئے پول کے کنارے کو پکڑتے پکڑتے پورے تالاب کا چکر لگانا بھی سیکھ لیا۔ گہرائی والے حصے میں جانے کا ڈر کم ہوا، اور کبھی کنارے کو پکڑ کر، اور کبھی پول میں لٹکی لوہے کی سیڑھی کو پکڑ کر گہرائی میں نیچے تک خود کو ڈبوئے رکھنے کی مشق بھی ہو گئی۔
ایک ایسی ہی شام میں پول کے کنارے سے دونوں کہنیاں لگائے لوہے والی سیڑھی کے قریب پانی میں لٹکا ہوا تھا، خیال میں اولمپک مقابلوں والی وہ تیراک لڑکیاں آ رہی تھیں، جنہوں نے اپنے لمبے بالوں پر سوئمنگ کی ٹوپی چڑھائی ہوتی ہے اور وہ مچھلیوں کی طرح پانی کو چیرتے ہوئے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچتی ہیں۔ ایسے ہی خیال آیا کہ سامنے والا کنارہ نہ سہی، اگر میں ترچھا ہو کر ساتھ والے کنارے پر پانچ چھ فٹ کا فاصلہ ایسے ہی طے کر لوں کہ نیچے نہ ڈوبوں تو کیا تیرنا آ جائیگا؟
احتیاطی تدبیر یہ تھی کہ اگر ایسا نہ ہو سکا اور میں پانی میں نیچے ہی آ رہا تو ساتھ لگی لوہے کی سیڑھی جو شفاف پانی میں پول کے اندر لگی روشنیوں کی وجہ سے صاف نظر آتی ہے اسکو پکڑ لوں گا۔ بس یہ اہتمام کر کے اندھا دھند پانی میں ہاتھ پاؤں مارے اور جانے کیسے یہ پانچ چھ فٹ کا فاصلہ طے کر کے پول کے ایک ہی کونے میں تکون بناتے ہوئے ایک کنارے سے ساتھ والے کنارے تک گیا۔
جب دوسرے کنارے کو ہاتھ پڑا، اور مڑ کر دیکھا تو کچھ دیر تک دل میں حساب لگاتا رہا کہ وہ کنارہ ادھر ہے، میں اس کنارے سے آ لگا ہوں، اور نیچے پانی دس بارہ فٹ گہرا ہے تو ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ پاؤں زمین سے لگے ہوں۔ ہو نہ ہو، یہ میں"تیر" کر ہی آیا ہوں۔ اپنے اس "تھیسس" کو ثابت کرنے کے لیے میں اسی طرح دوسرے کنارے سے واپس پہلی جگہ پر آیا۔ اور مجھے یقین ہو گیا کہ انسان زمین پر پاؤں رکھے بغیر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے۔
دوستو! زندگی میں موٹیویشن کا کوئی بھی لمحہ اس لمحے سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا جب پہلی بار آپ کو "اشارہ" ملتا ہے۔ منزل پر پہنچنے کا اشارہ۔ جو آپ کے خیال میں ناممکن تھا، اسکے ممکن ہونے کا اشارہ۔ اس شام میں اکیلا اس تالاب میں غوطے کھاتا رہا اور اپنا فاصلہ بڑھاتا رہا۔ پانچ سے سات، پھر نو، پھر بارہ اور بالاخر پول کی پوری چوڑائی بیس فٹ میں نے سانس لیے بغیر تیر کر پار کر لی۔
وہ ایک لمحہ جو مجھے اس تالاب میں عطا ہوا، جس نے میرے بدن کے بوجھ کو پانی سے سہارہ دیا، مجھے منزل کی راہ دکھا گیا۔ مجھے ممکن کے سفر پر ڈال گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے بعد کئی اور منزلوں کے لیے میری راہ اس لیے آسان ہو گئی کہ غوطے کھانے کے دوران میں ہمیشہ وہ لمحہ تلاش کرنے لگا، کہ جس کی انگلی پکڑ کر میں"تالاب کے دوسرے کنارے جا لگوں"۔