Bachon Mein Ehsas e Kamtari
بچوں میں احساسِ کمتری
ہمارے اردگرد ہر دم پلنے بڑھنے والی نازک اور معصوم مخلوق، ہمارے بچے بھی آج کل کے تیز رفتار دور میں بہت سی نئی الجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ معصوم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اندر کی کیفیات کو ہمارے ساتھ کھل کر بیاں نہیں کر پاتے، لیکن کئی ایسے مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں۔ جو بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں ایک ناسور کی طرح پل بڑھ رہے ہیں۔ ذہنی تناؤ، پریشانیاں اور ڈپریشن، یہ کسی زمانے میں امیروں اور بڑوں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں، لیکن آج اس سے ہمارے بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔
تعلیم کے ابتدائی چند سال کا عرصہ ہر بچے کی زندگی کا ایک ایسا وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی کئی طرح کی مشقت ہوتی ہے۔ جس میں دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت کو بھی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کچھ بچے اس سائیکل میں بہت کامیاب رہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے زیادہ تر بچے اس عمل میں احساس کمتری کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔
تعلیم کے دوران آئے دن ٹیسٹ اور اسائمنٹ سے جہاں ان کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے، وہیں مسلسل گرتی کارکردگی کچھ بچوں کے ذہن میں تشویش کا باعث بن کر سامنے آتی ہے۔ حتیٰ کہ معاملہ اس قدر سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے کہ بچے کو اپنے اندر کسی صلاحیت پر یقین نہیں رہتا اور وہ اپنی ذات کو لے کر شک و شبہات میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس طرح کے جذبات کے ساتھ زیادہ عرصے تک منسلک رہنے سے بچے کے اندر احساس کمتری جنم لیتی ہے، جو ایک یقین میں بدل جاتی ہے اور بہت جلد اس کو اپنے بارے میں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
"کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں intelligent/Smart ہوں؟"
"مجھے نہیں لگتا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں کرسکتا ہوں؟"
جن بچوں کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہوتا وہ اکثر دوسروں سے توثیق کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ دوسرے انھیں مستقل طور پر یہ بتائیں کہ وہ کسی کام کو کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ دوسروں کے خیالات اور رائے کو وہ بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا بچہ امید کررہا ہے کہ آپ اسے یقین دہانی کروائیں کہ ہاں وہ کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی اور لاپروائی اس کو مزید قائل کردیتی ہے کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ایسے حالات میں سب سے زیادہ ذمے داری والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کا بغور مطالعہ کریں اور انہیں جانچنے کی مکمل کوشش کریں۔ کیا وہ اس طرح کی نفسیاتی الجھنون کا شکار تو نہیں ہیں؟ اگر بچے پر مکمل توجہ دی جائے تو کچھ ہی عرصے بعد ان کے اندر بدلاؤ لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
اپنے بچے کے ساتھ بیٹھیں اور اس سے کارکردگی کے بارے میں پوچھیں اور اس کو سننے اور جاننے کی مکمل کوشش کریں۔ آج کے تیز رفتار دور میں والدین کا سب سے بڑا مسئلہ وقت کی کمی اور بچوں کی بات کو پوری توجہ سے نہ سننے کا ہے۔ بچے کی بات کو پوری توجہ سے سنیں اور اس کے اندر یہ اعتماد ڈالیں کہ وہ کسی بھی چیز کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس کو اچھی کارکردگی کے لیے بہت بڑی چھلانگ مارنے کی ضرورت نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے بھی وہ بہتری لاسکتا ہے، جو کہ تھوڑی توجہ اور محنت سے ہی ممکن ہے۔ اس کے اندر چھوٹے چھوٹے گول حاصل کرنے کی خواہش پیدا کریں۔ جیسے ہی بچہ ایک ہدف مکمل کرلے گا تو اس کے اندر دوسرے کام کرنے کا اعتماد بڑھے گا۔
دوسروں سے حسد اور کمتری محسوس کرتے ہوئے بچے کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی مختلف ہوتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا ایک سیکھنے کا عمل ہوتا ہے۔ اس کو برسوں پہلے کا وہ تمام مواد اور کام دکھائیں، جو وہ سیکھ چکا ہے۔ پھر اس کا موازنہ آج سے کریں۔ اس کو یہ باور کروائیں کہ وہ اتنا کچھ سیکھ کر یہاں تک پہنچا ہے۔ اس سے بچے کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کے اندر بھی سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ جب وہ اپنی سیکھنے کی کارکردگی سے متاثر ہوگا تو اس کے اندر مزید سیکھنے کا عمل اور اعتماد بڑھے گا۔
سب سے بہترین اور آزمودہ حل غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہے۔ غیر نصابی سرگرمیاں طلبا میں اعتماد پیدا کرنے کا ایک زبردست طریقہ ہے۔ کھیلوں کی ٹیمیں، آرٹ کلاسز، اسکول ڈرامے اور دیگر سرگرمیاں طلبا کے اعتماد میں زبردست اضافہ کرتی ہیں۔ یہ اعتماد اسکول سمیت زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اپنے بچے سے پوچھیں کہ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے؟ انہیں اس کلاس میں داخل کروائیں اور اس کی ہر کارکردگی کو خوب سراہتے ہوئے اس کے اندر اعتماد اور حوصلہ بڑھائیں۔
جو مسائل اور پریشانیاں ان ننھی جانوں کو عمر کے ایک خاص حصے میں ملنا نصیب ہونی ہیں، ان کے کاندھوں پر ابھی سے وہ بوجھ نہ ڈالیں۔