Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Umeed Hai Tumhari Koi Beti Nahi Hogi

Umeed Hai Tumhari Koi Beti Nahi Hogi

امید ہے تمہاری کوئی بیٹی نہیں ہوگی

جیسن سٹیتھم کی ایک فلم ہے A working man کے نام سے۔ فلم میں جیسن کو سابقہ امریکی میرین دکھایا گیا ہے جو اس وقت ایک چھوٹی سی فیملی اونڈ کنسٹرکشن کمپنی میں کام کر رہا ہے اور ساتھ اپنی بیوی کی خودکشی کے بعد اپنی بیٹی کی کسٹڈی کے لیے سسر کے ساتھ قانونی جنگ میں بھی مصروف ہے۔ اس کمپنی کے مالک کی بیٹی کالج سمسٹر کے اختتام پر پارٹی کے لیے نکلتی ہے اور اغواء ہوجاتی ہے۔ جیسن اسے بازیاب کروانے کا وعدہ کرکے نکلتا ہے اور یہی فلم کی تھیم ہے۔ فلم میں ایک سین ہے جہاں جیسن روسی مافیا کا اہم بندہ پھڑکا رہا ہوتا ہے جو اس سے پوچھتا ہے کہ تو یہ سب کچھ ایک لڑکی کے لیے کر رہا ہے؟ جوابا جیسن الٹا سوال کرتا ہے۔۔

"کیا تمہاری کوئی بیٹی ہے؟"

جواب ملتا ہے "نہیں"۔۔

اس پر جیسن جواب دیتا ہے۔۔

"پھر تم نہیں سمجھو گے۔۔ "

اور پستول کا چیمبر خالی کر دیتا ہے۔

اس سوال یعنی "کیا تمہاری کوئی بیٹی ہے؟" کو ذہن میں رکھیے گا۔ اس پر دوبارہ آتے ہیں کچھ دیر میں۔

سوشل میڈیا پر میرے حلقے میں موجود افراد کی اکثریت پاکستان میں پلی بڑھی ہے۔ ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی ارتقاء کے لامتناہی سفر سے گزرتا رہا ہے، گزرتا رہے گا۔ فرد معاشرے کی اکائی ہوتا ہے لہذا معاشرے کی طرح ہم سب بھی ارتقاء کے مستقل سفر کے مسافر رہتے ہیں۔ ہم سب نے بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھتے ہوئے بلوغت کی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ اس تغیر کے دوران ہماری سنگت ہماری محفل میں کوئی خاص مثالی دوست یار موجود نہیں تھا، یا چلیے یہ کہہ لیجیے کہ کم از کم میری محفل میں تو شاذ ہی کوئی مناسب بندہ موجود رہا ہو۔

لیکن اور یہ بہت بڑا لیکن ہے۔۔

اس دور میں بھی جب بلوغت کی ابتداء کے باعث جنسی میلان اپنے ظہور کے ابتدائی حصے میں تھا، خود سے چھوٹے بچوں پر ہمیشہ معصومانہ پیار ہی آیا ناکہ کبھی جنسی جذبات ٹرگر ہوئے۔ مکرر عرض ہے، فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ میرے ارد گرد ایسا کوئی زلیل الاصل شخص موجود نہیں رہا، اس کے باوجود ہم سب ہی نے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک کم سن بچوں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سنے پڑھے دیکھے ہی ہیں۔

ایسا کیوں؟

کیونکہ درندے بہرحال ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے ہی درمیان رہ کر جنسی درندگی کا اظہار suppress کرنے یعنی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس فرد میں جنسی درندگی کی خواہش کا یہ اظہار نظر آجائے یا بادی النظر میں نظر آجائے اسے۔۔ پوٹینشل ریپسٹ کہتے ہیں اور یہ وہ دوسرا نکتہ ہے جس پر ہم کچھ دیر میں واپس آئیں گے۔ پہلا نکتہ "کیا تمہاری کوئی بیٹی ہے؟" تھا۔

آج سے پہلے میں ہمیشہ سے پوٹینشل ریپسٹ کی اصطلاح کسی پر تھوپنے سے گریزاں رہا ہوں کہ میرے پاس کوئی منطقی طریقہ کار نہ تھا کہ کن واضح بنیادوں یا شرائط پر پورا اترتا شخص اس اصطلاح کا حق دار کہلایا جائے گا، تاہم مجھے کہنے دیجیے کہ آج مجھے یہ اصطلاح کافی یا کسی حد تک سمجھ آنے لگی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بلوغت میں ظاہر ہونے والی تبدیلیوں پر بات کرنے کا کوئی آفیشل چینل نہیں۔ مثلاً ہمارے والدین نے ہمیں نماز کی جو کہ خالصتا حقوق اللہ کا حصہ ہے، کے بارے میں تو شاید لاتعداد بار بیٹھ کر سمجھایا سکھایا ہو مگر کتنی بار آپ کو سامنے بٹھا کر کسی اور کے لیے بیڈ ٹچ سے باز رہنے کی واضح تاکید ہوئی؟ اصولی طور پر اس موضوع کا آفیشل چینل ہمارا تعلیمی نظام ہونا چاہیے مگر حیف کہ وہاں بھی اس موضوع کی ترویج میں ایک خاص طبقہ مانع ہے، جس پر بات پھر کبھی۔ مکرر عرض ہے۔۔ ہمارے معاشرے میں بلوغت میں ظاہر ہونے والی تبدیلیوں پر بات کرنے کا کوئی آفیشل چینل نہیں۔ نتیجہ؟ دورانِ بلوغت اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وہی دوست یار بچتے ہیں جو آپ سے سال دو پہلے اس سے گزر چکے ہوں۔

اور جنسیات پر لڑکپن یا نوجوانی میں کس طرح بات کی جاتی ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کھلا ڈلا ہو کر بھی میں اس کی تفصیل میں جانے سے گریز ہی کروں گا کہ اُس دور کی وہ گفتگو نہ تب قابلِ بیان تھی نہ آج کم از کم ہمارے معاشرے میں ہوتی ہے۔

نتیجہ؟

لڑکپن ہی سے عورت کی آبجیکٹفکیشن۔۔

آگے چلتے ہیں۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ شاید مجموعی طور پر پورا معاشرہ ہی ہے لیکن بطور فرد بہتر انسان بننے کی خواہش نہ ہونے کا ملبہ فقط معاشرے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ پھر۔۔ اس ضمن میں کئی قدرتی تبدیلیاں بھی آتی ہیں جو آپ کو ایک اچھا انسان بننے کی تحریک ضرور دیتی ہیں، جن کا براہ راست تعلق عمر کے ساتھ ایک ڈیویلپ ہوتے ہوئے دماغ کی شکل میں ہوتا ہے۔

مثلاً۔۔ آپ لڑکپن سے نوجوان، نوجوان سے جوان، جوان سے مرد، مرد سے ادھیڑ عمر مرد اور ادھیڑ عمر مرد سے بزرگی کے ادوار سے گزرتے ہیں۔ لڑکپن فقط کنفیوژن کا نام ہے لہذا میں اس پر بات ہی نہیں کرتا۔ تئیس برس کے بعد البتہ ہم مردوں کی اکثریت کم از کم اتنے انسان کے بچے ضرور بن جاتے ہیں کہ اپنے پانچ سالہ بھانجے بھانجی کو فقط ایک معصوم بچے یا بچی کی صورت دیکھتے ہیں۔

لیکن کچھ لوگ انسان نہیں بن پاتے بلکہ حیوان ہی رہتے ہیں اور بطور درندہ وہ بچوں کو معصومیت کے استعارے کے طور پر نہیں دیکھتے۔ پھر ان میں سے جن کو موقع مل جائے وہ پیڈوفائل اور ریپسٹ بن جاتے ہیں، جنہیں موقع نہ مل پائے وہ ان کی بابت بکواس کرکے خود کو پوٹینشل ریپیٹ کے زمرے میں شامل کر لیتے ہیں۔

تیس پینتیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے اکثریت خود باپ بن چکی ہوتی ہے۔ اب تک معاشرتی قداغن کے اندر رہتے ہوئے بھی جنسی گھٹن کا حل مل چکا ہوتا ہے۔ اکثریت کی جنسی درندگی اب تک ختم ہوچکی ہوتی ہے کیونکہ دماغ جوانی کے دور سے آگے جا چکا ہوتا ہے۔ اس عمر میں کسی پر نیچ نگاہیں ڈالتے ہوئے انسان کا بچہ مرد کم از کم خود سے ایک سوال لازمی کرنا شروع ہوجاتا ہے۔۔

"کیا تمہاری کوئی بیٹی ہے؟"

لیکن کچھ لوگ اس عمر میں بھی حیوان درندے ہی رہتے ہیں، جنہیں اس عمر کو پہنچ کر بھی بارہ تیراں سال کے بچے بچیوں میں معصومیت کی بجائے جنسیت دکھائی دیتی ہے جس کا اظہار انہیں پوٹینشل ریپسٹ کی فہرست میں شامل کر دیا کرتا ہے۔

چالیس پینتالیس کی عمر کو پہنچنے تک دماغ اتنا میچیور ہوچکا ہوتا ہے کہ انسان کو "خیر ہے بچہ ہے جانے دو" والا ایج نہیں دیا جا سکتا، نہ ہی اسے ناتجربہ کاری کی خطاء معاف کی جا سکتی ہے۔ اب ہم مرد جذبات کو ایک جانب رکھ کر منطق کی بنیاد پر بات کرنا اور دلیل ماننا یا منوانا سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر۔۔ اب ہماری اپنی اولاد نوجوانی کے آس پاس ہوتی ہے۔ اس عمر میں اکثریت کی آنکھوں میں حیاء، شرم خود اپنی ذات کی حد تک پیدا ہوچکا ہوتا ہے یا ہوجانا چاہیے۔ اس عمر میں ہم نوجوانوں میں اپنی اولاد دیکھنا شروع کر چکے ہوتے ہیں۔

لیکن۔۔

پھر ایک عمر رسیدہ چاچا اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ۔۔ "بس یہ خیال رکھیں کہ کسی مخصوص ٹک ٹاکر کو ضرورت سے زیادہ نہ دیکھیں، اس سے جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے۔۔ "

قارئین کرام۔۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پوٹینشل ریپسٹ کی اصطلاح پر دو سو فیصد پورا اترتے ہیں۔

لیکن ظاہر ہے، یہ اتنے احمق بھی نہیں ہوتے کہ براہ راست اپنی درندہ صفت جنسی خواہشات کا اظہار کرنا شروع کر دیں، لہذا ابتداء میں یہ لوگ "بے حیائی، فحاشی" وغیرہ جیسے تصورات کے پیچھے چھپ کر انہی میں لتھڑے "معاشرے کی اصلاح" کا بیڑا اٹھائے نظر آتے ہیں۔

ان پوٹینشل ریپسٹوں کو والدین نے بالغ ہونے پر سامنے بٹھا کر "کن چیزوں سے بچنا ہے" کے ساتھ ساتھ دو فقرے "دوسروں کو خود سے کیسے بچانا ہے" پر بھی سکھائے ہوتے تو یقین کیجئے معاملات کچھ بہتر ہوتے۔

آپ سوچیے۔۔ انہیں اس عمر میں بھی ثناء یوسف جیسی بچی میں اپنی بیٹی نظر نہیں آتی۔۔

مجھے کہنے دیجیے۔۔ اوریا مقبول جان سے لے کر کئی انسان کی شکل میں درندہ۔۔ یہ وہ دلے ہیں جن کے ارد گرد ان کے خاندان کی بچیاں بھی ان سے محفوظ نہیں۔

جس انسان کو اس عمر میں پہنچ کر بھی بیٹی کی عمر کی بچیوں میں اپنی بیٹی دکھائی نہ دے، جو ایک ناحق قتل پر بھی اپنی جنسی تلذذ کو رگڑ رہا ہو، جسے اپنی عمر کا پاس نہ ہو۔۔ اسے پوٹینشل ریپسٹ آخر کیوں نہ کہا جائے؟

اس سے تو سوال بھی بدل کر پوچھنا چاہیے۔۔

"امید ہے تمہاری کوئی بیٹی نہیں ہوگی؟"

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali