Suba Karachi. Purane Truck Ki Nai Batti
صوبہ کراچی - پرانے ٹرک کی نئی بتی
پاکستان بلا شبہ ایک مملکت خداداد ہے جس کو رب کریم نے نے انتہا وسائل سے نواز رکھا ہے۔ ہمین عطا کیے گئے وسائل میں سے کئی قابل ذکر اور منفرد ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں 4 موسم پائے جاتے ہیں جس کے باعث ہم کم و بیش ہر فصل آگا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس دریا بھی کثرت سے ہیں اور سمندر بھی۔ ہمارے پاس قدرتی وسائل و معدنیات کی بھی کوئی کمی نہیں۔ غرضیکہ ہمیں قدرت نے ہر اہم ریسورس سے مالامال کیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم ایک تنزل کا شکار ہیں اور میری ناقص رائے میں اس کی ایک اہم وجہ بھی اللہ کے ان إحسانات میں سے ایک کا منفی استعمال ہے۔
قارئین کرام، اللہ پاک نے ہمیں بہترین دماغوں سے بھی نواز رکھا ہے اور انہی اذہان میں سے چند ہمارے سیاسی لیڈران کی صورت میں ہم پر مسلط ہیں۔ یہ تمام حکمران ہمیشہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ عوام کے پاس وقت گزارنے کے لیے کوئی نا کوئی ٹاپک یا کوئی عنوان موجود ہو۔ یہ کبھی ارادی اور کبھی غیر ارادی طور پر ہمیں ٹرک کی بتی کی جانب بھگا دیتے ہیں اور ہم میں سے اکثر اس بتی کے پیچھے نکل پڑتے ہیں۔ قارئین کرام، نئے صوبوں کی بحث ایسی ہی بتیوں میں سے ایک ہے۔
تازہ ترین مطالبہ ہے کہ کراچی کو صوبہ بنا دیا جائے۔ اس ضمن میں اردو بولنے والے کچھ ایسے بھائی کافی متحرک ہیں جن کے خیال سے کراچی ہی اصل پاکستان ہے اور جن کی سوچ تنزلی کی اس نہج پہ ہے جس کے تحت کراچی کو پاکستان سے الگ کر دیا گیا تو پاکستان شاید بھوکا مر جائے گا۔ اپنی دلیل کو تقویت وہ مختلف اعداد و شمار کے ذریعے دیتے ہیں جس کی بنیاد کراچی پورٹ ہے۔ ایسے حضرات کچھ زمینی حقائق کو یکسر نظرانداز کر ڈالتے ہیں اور یوں ارادی یا غیر ارادی طور پر لسانی منافرت پھیلانے کا باعث بن جاتے ہیں۔
کراچی کو 70% ٹیکس کلیکشن کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اس عدد کو بنیاد بنا کر باقی پاکستان کو بھوکا ننگا ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش بھی کہ جاتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے شاید یہ بات نہیں جانتے کے کہ معاشی سرگرمی کا سر چشمہ دراصل باقی کا پاکستان ہی ہے جہاں سے منافع اپنے کراچی میں واقع ہیڈ آفس کو بھیجا جاتا ہے۔ فیصل بینک کا ہیڈ آفس چونکہ کراچی میں ہے لہذا اس کا منافع اور اس پر مبنی ٹیکس کراچی ہی سے ایف بی آر کو ترسیل کیا جائے گا۔ اسی طرح، فیصل آباد میں کپڑے کی صنعت کے لیے خام مال بھی کراچی پورٹ کے ذریعے برآمد کیا جائے گا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کپڑا بکے گا بھی صرف کراچی میں۔ آپ کراچی کا راستہ بند کرنے کی کوشش کریں گے تو صاحب ہم گوادر کو اپنی مجبوری بنا لینگے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کی یہ ریونیو کلیکشن اگر ہے تو باقی کے پاکستان کی وجہ سے وگرنہ صرف کراچی کے ریونیو سے تو شاید آپ پورٹ کی آپریٹنگ کاسٹ بھی نہ پوری کر سکیں۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کے بحری راستے کے محافظ وہ جانباز ہیں جنہیں اسلحہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ سے ملتا ہے۔ آپ صرف کراچی سے تو شاید اپنے لیے بجلی بھی پوری نہ کر سکیں۔ اس وفاق کو گالیاں دینے سے پہلے اپنی بقا کے لیے ضروری فہرست پر ایک نظر ڈال لی جائے تو شاید خود پرستی کا یہ بھوت کسی کونے بیٹھ جائے۔ ہمیں کراچی سے عشق تو ہے مگر یہ ویسا ہی عشق ہے جیسے ملتان، لاڑکانہ، چارسدہ یا کوئٹہ سے ہے۔ آپ کے پاس سرخاب کے پر نہیں جیسے کسی اور کے پاس نہیں۔
اب آتے ہیں انتظامی لحاظ سے کراچی کی قومی اسمبلی میں نمائندگی پر۔ کراچی کی فی مربع کلومیٹر آبادی باقی کے سندھ کی فی مربع کلومیٹر آبادی سے بہت زیادہ ہے۔ یعنی کراچی میں 10 مربع کلومیٹر میں بننے والا ایک فلائی باقی کے صوبے میں بننے والے فلائی اوور سے کہیں زیادہ لوگوں کے کام آئے گا۔ اب اس فلائی اوور کے لیے ایک کی بجائے دو ایڈمنسٹریٹر لگانے کی کیا تک بن سکتی ہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔
مطالبہ کرنے والی جماعت کے بھتہ خوری سے بھرپور ماضی میں جانے کی مجھے کوئی خاص ضرورت نہیں، لیکن آخر میں یہ ضرور لکھتا چلوں کے اگر کراچی کے بھائی چاہتے ہیں کہ 'بھائی' ہی ان پر کنٹرول کی رہی سہی کسر بھی پوری کر لیں تو اپنا یہ شوق پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں لیکن سندھ کے بھائیوں کو بھی ذہن میں رکھیے گا جو کراچی کو سندھ کا حصہ مانتے ہیں۔ آپ اس بتی کے پیچھے بھاگ لیجیے جتنا بھاگنا ہے لیکن آخر میں آپ کو کچھ ملنا ہر گز نہیں۔۔ شاید کبھی نہیں۔