Professional Life, Chand Mushahidat Aur Mashwarajat
پروفیشنل لائف، چند مشاہدات اور مشورہ جات
مثلاً آپ ایک سسٹم ایڈمنسٹریٹر ہیں اور آپ کا کسٹمر یا آپ ہی کی آرگنائزیشن کا ایک فرد کسی مسئلے کی جانب نشاندہی کرواتا ہے۔ آپ مسئلے کو دیکھتے ہیں، غور کرتے ہیں اور اس کے بعد آپ کے دماغ میں کچھ ایسا چلتا ہے کہ آپ بجائے مسئلے پر بات کرنے کے اسے کہتے ہیں۔۔"میں نے تمہارے لیے انفراسٹرکچر کھڑا کیا، میں نے ایپلیکیشنز انسٹال کیں، میں نے فائر وال لگائی، میں نے ٹریننگ دی اور اب تم مجھے مسئلے بتا رہے ہو؟ اب تم ایسا کرو گے میرے ساتھ؟ "
کسی بھی رپورٹ شدہ مسئلے کو انسان ایک بار مسئلے کے سیاق و سباق سے باہر نکل کر دیکھ سکتا ہے، دو تین بار یہی کر سکتا ہے لیکن بار بار کرنے کا مطلب ہے بندے کی اپنی ڈومین میں کہیں نہ کہیں کوئی فالٹ ہے جس پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔ اب یہ فالٹ ٹھیک کرنا ہے یا سٹیک ہولڈرز کو ایسے ہی جذباتیت پر ٹرخا دینا ہے، یہ بندے بندے پر منحصر ہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہر بار مسئلے کو قالین کے نیچے ڈالنے سے قالین پر ایک ہی بار ٹھوکر لگتی ہے اور سارا کچرا باہر آجاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم قالین کے کچرے کو بھی ایک پرابلم کے طور پر لے کر systematically حل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی سائیڈ پر موجود مسئلے کو کم سے کم درجہ میں بھی مسئلہ ضرور ماننا پڑے گا۔ تیرا میرا اگلے مراحل میں طے ہوجائے گا۔
پرابلم سالونگ Problem Solvingایک سکل skill ہے جس میں پرابلم ڈیفینیشن problem statement، پرابلم انالیسس problem analysis، سلیوشن solution، روٹ کاز اینالیسس Root Cause Analysis، لیسنز لرنٹ Lessons Learnt، اور کانٹینول امپروومنٹ Continual Improvement جیسے سٹیپس شامل ہیں۔ یہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی پروفیشنل اپروچ ہے۔ اس اپروچ پر چلنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کا کسی اپنے پئیرز peers، انتظامیہ management اور اپنے سب آرڈینینس sub ordinates کے ساتھ پروفیشنل تعلق تو مضبوط ہوتا ہی ہے، ساتھ ساتھ ایک ذہنی ہم آہنگی بھی بڑھتی ہے جو بعد ازاں مضبوط دوستی کا سبب بھی بنتی ہے۔
ایک اور مسئلہ ان سیکیورٹی کا ہے۔ مثلاً میں ابو ظہبی میں جہاں جاب کرتا ہوں یہاں میرے ایک ریسورس کو جو مجھ سے پرانا تھا اور جسے کبھی میں رپورٹ کرتا تھا بعد میں اسی کا مینیجر بن گیا، بہت تشویش ہوتی تھی کہ تم فلاں آرگنایزیشن کے بندوں کے ساتھ اتنا گھل مل کیوں جاتے ہو۔ یہ پروفیشنل ان سیکیورٹی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کی جڑ کسی حد تک مثبت ہوتی ہے کہ فلاں بندہ کھو نہ جائے لیکن میرا خیال ہے ہر فرد کو اپنی اڑان اڑنے کا پورا حق حاصل ہونا چاہئے کیونکہ فرد اور پنجرے میں بند طوطے میں فرق ہوتا ہے۔ انسان انسان ہے، کوئی چیز نہیں کوئی پرندہ نہیں کہ اس کے بارے میں سوچا جائے اڑ گیا تو واپس نہیں آئے گا۔ پروفیشنل لائف میں بھی اپنے ریسورسز کو اڑنے کا پورا موقع اور حق دیا جانا چاہئے۔
میں اور انصاری صاحب دو الگ الگ کمپنیز سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ہی پراجیکٹ پر ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر تربیلا پہنچے ہوتے تھے۔ شاید ۲۰۱۰ کا سال تھا۔ مجھے میرے کنٹری ہیڈ کی جانب سے سخت تاکید تھی کہ بلاوجہ انفارمیشن شئیرنگ نہیں کرنی اپنے سسٹم کی۔ ممکن ہے انصاری صاحب کو بھی ایسی ہی کوئی تاکید کی گئی ہو۔ میں تب نارٹل نیٹ ورکس Nortel Networks پر کام کرتا تھا۔ انصاری صاحب Cisco کے حکیم تھے۔
ہم نے ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر میں نارٹل اور سسکو کی سلام دعا کروانی تھی۔ اب میں اپنے سسٹم کی نالج شئیر نہ کرتا تو کام آگے نہ بڑھتا۔ ہم دونوں کو روزانہ اسلام آباد سے تربیلا غازی جانا پڑتا۔ خیر ہم نے اپنے افسران بالا کی ان سیکیورٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے پوری دیانت داری سے ایک دوسرے سے سچ بولا اور تین ہفتے کا کام ایک ہفتے میں کر کے آگے بڑھ گئے۔ انصاری صاحب تب سے ہمارے اولین دائرے میں ہیں۔
میرا کنٹری ہیڈ اس حد تک ان سیکیورٹی کا مارا تھا کہ ایک دن مجھے Cisco کی ٹریننگ کرتا دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔"دوسری جاب ڈھونڈ رہے ہو؟ " یہ بچگانہ حرکت ہے۔ کوئی مانے تو مانے نہیں ماننی تو مستقبل وسیع ہے انشاءاللہ، زندگی کسی اور طرح سکھا دے گی۔
ایک اور معاملہ face value کا ہے۔ مثلاً آپ کسی جونئیر ریسورس سے ایک کام کہتے ہیں۔ وہ آپ کو کہتا ہے میں فلاں کام کر رہا ہوں۔ اب آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو اس کی بات سچ مان لیں یا اسے تاکید کریں کہ فی الحال دوسرا کام چھوڑ کر یہ والا کرو۔ دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن یہی معاملہ آؤٹ آف آفس آورز میں یعنی دفتری اوقات سے باہر ہو تو ایسے میں اوّل آپ ریسورس سے کام لینے کا حق نہیں رکھتے۔ وہ انکار کرتا ہے تو اس پر منہ بنا کر بیٹھ جانا بحیثیت مینیجر یا باس ایک عدد بچگانہ حرکت ہے۔ مکمل طور پر نان پروفیشنل اپروچ۔ اس پر مزید ستم یہ کہ آئیندہ آپ اس پر طنز کے تیر برسانا شروع کر دیں کہ یار فلاں تو ہی کر دے کام فلاں تو بہت مصروف ہے وغیرہ وغیرہ تو یہ بچگانہ سے آگے بڑھ کر ایک غلط حرکت ہے۔ اس سے آپ اپنا قد نیچا کریں گے اور اپنے ریسورسز کو خود سے بدظن کریں گے۔
ایک آخری مگر نہایت اہم بات۔
میں ایک بندے کو جاب دلواتا ہوں۔ ممکن ہے بلکہ مان لیتے ہیں کہ یہ میرا احسان ہے۔ اب کچھ عرصے بعد اسے بہتر جاب ملتی ہے۔ اب میری کمپنی چھوڑنا اس کا حق ہے کیونکہ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا کیریئر میں آگے بڑھنا ہر فرد کا حق ہے۔ کبھی میرا بھی تھا۔ یہاں بندے کو ایموشنل بلیک میل کرنا الحمد للّٰہ ہم پاکستانیوں کا بڑا ہی خاص خاصہ ہے۔ ہم اسے احسان یاد دلائیں گے۔ مینٹورشپ یاد دلائیں گے۔
ہم اسے بتائیں گے کہ کیسے تمہارے اوپر احسان کر کے ہم نے تمہاری روح تمہارا ضمیر تمہارے آگے بڑھنے کے مواقع ہم چھین چکے ہیں۔ یہ نہایت ہی گھٹیا حرکت ہے۔ پہلا سوال یہاں یہ کھڑا ہوتا ہے کہ میں نے ریسورس ہائیر کیا ہے بیشک وہ میرا دوست یار بھائی ہی کیوں نہ تھا، یا ہائیر ہونے کے بعد ہی کیوں نہ بھائی دوست یار بن گیا، اب جب یہ تعلق راہیں جدا ہونے پر پہنچ ہی گیا ہے تو ہم روح ضمیر سکلز کے مالک بن کر اگلے کو جتائیں یا اسے بیسٹ آف لک کہہ کر سینے سے لگائیں اور اسے ثابت کر کے دکھائیں کہ مینٹور دراصل ہوتا کیا ہے؟
میری ٹیم کے بندے مجھے بتا کر مجھ سے پوچھ کر انٹرویو دینے جاتے رہیں ہیں اب بھی جاتے ہیں۔ آخری بار یہ کام کوئی دو ماہ پہلے ہوا۔ کیا اب میں بچے سے سڑ کر بیٹھ جاؤں؟ توڑ دوں رشتہ؟ یہ کہوں کہ اچھااب تو ایسا کرے گا؟ طعنے دوں کہ اچھااب ہمیں چھوڑ کر جائے گا؟ نہیں۔ بحیثیت مینیجر بحیثیت مینٹور یہ عجیب سی حرکت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اچھے مینیجر نہیں اچھے سیٹھ ہیں۔ اور سیٹھ کبھی پروفیشنل نہیں ہوتا۔ سیٹھ باہر سے جتنا ہی میٹھا کیوں نہ لگے اندر سے اسے اپنے مطلب سے غرض ہوتی ہے۔
یہ تمام باتیں میرے 14 سالہ تجربے کا حاصل ہیں۔ چاہیں تو سنبھال کر رکھ لیں، چاہیں تو دیوار پر مار دیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ بندہ کیسی سنجیدہ پوسٹیں کر رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ سنجیدہ موضوعات میرے پاس بھی بہت ہیں۔ ایسا نہیں کہ میں سنجیدہ موضوع پر بات نہیں کر سکتا۔ بات یہ ہے کہ میں سنجیدہ موضوعات پر بات کرنا نہیں چاہتا۔ میں طنز کا مزاح کا مداح ہوں اور شاید اسی ڈومین میں رہنا "چاہتا" ہوں۔ اب اس کی بنیاد پر کوئی بھی ٹیگ منظور ہے۔ ٹرولر کہہ لیں۔ بدتمیز کہہ لیں۔ بدتہذیب کہہ لیں۔ ٹُچا اچھا لفظ ہے فٹ بیٹھتا ہے ٹچا کہہ لیں۔
میں جانتا ہوں آپ میں سے کئی احباب مجھے سنجیدہ باتیں کرنا دیکھنا چاہتے ہوں گے۔ یقین کیجیے میں آپ کی خواہش کا احترام کرتا ہوں۔
لیکن اس بات کا احترام کون کرے گا کہ میں کیا "چاہتا" ہوں؟
شاید۔۔۔ کوئی نہیں۔
کیونکہ یہاں پتلی تماشہ عام ہے۔ اور پتلی کو دھاگے کے علاوہ حرکت کا کوئی حق حاصل نہیں۔