Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Kuch Mazeed Dukh

Kuch Mazeed Dukh

کچھ مزید دکھ

چند باتیں سامنے رکھنے کا دل ہے۔ کچھ دکھ ہیں، ان دکھوں حاصل کردہ کچھ خیر ہے، ایک سوچ ہے اور اس سوچ پر اپنے ذہن سے ہٹ کر تنقید یا اس میں اغلاط کی نشاندہی کی خواہش۔

نسلی و علاقائی تفاخر سے مجھے چڑ سی ہے۔ میں اس کی وجوہات پر غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ نسلی تفاخر کا سامنا مجھے پشاور میں رہتے ہوئے ہوش سنبھالنے کے بعد 23 برس کی عمر تک کرنا پڑا جب تک میں اس شہر میں رہا۔

میرے پاس پشاور کی بہت سی یادیں موجود ہیں، بہت ہی قیمتی یادیں۔ ابا کی تیس بتیس سال کی عمر میں پہلی اوپن ہارٹ سرجری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد پرہیز کی وجہ سامنے رکھتے ہوئے کنبے پر ہوٹل کا کھانا حرام تھا۔ ہوٹل کے نام پر غالباً ایف ایس سی تک میرے پاس چیف کے پیزے اور ایک آدھ بار نمک منڈی کی یاد موجود ہے۔ ایسے میں ایک بار ہم نے گھر چارسدہ روڈ سے صدر شفٹ کیا تو چوک فوارہ کے قریب واقع دہلی مسلم ہوٹل کا کھانا آج بھی نہیں بھولتا۔ بھلا دور تھا، کمرشلزم نے ابھی وہ رنگ نہ دکھائے تھے جو آج سامنے ہیں۔ غالباً کوئی سبزی کوئی قیمہ جیسی عام سے پکوان تھے۔ وہ بھی یوں لانے پڑے کہ گھر تبدیل کرنے کے بعد چولہا وغیرہ لگا نہ تھا۔

مجھے پشاور صدر میں عاشورہ کا جلوس بھی یاد آتا ہے۔ بہت قیمتی ہے وہ مواقع جب ابا کے بہت ہی کمال دوست سید مظاہر زیدی کی فیملی دس محرم کی گرمی میں ماتم اور زنجیر زنی کے بعد فاقہ ہم سنیوں کے گھر توڑا کرتے۔ عاشورہ کے جلوس میں مفت کا شربت بھی کمال کشش رکھتا جب ہمیں احساس ہوتا کہ شربت کی حیثیت شاید صفر ہے، اس کی صفر قیمت یعنی کہ مفت ہونا معنی رکھتا ہے۔

ایک دور تھا ہمارے ابا نے فرینڈز فاسٹ فوڈ کے نام سے گلبرگ نمبر دو، بمبہ روڈ پر دوکان کھولی تھی۔ یہ 1996 کا سال تھا۔ ابا مرحوم اس وقت گریڈ 16 کے سرکاری ملازم تھے۔ دوکان کے پیچھے سوچ بعد از دفتر جو تب شاید ایک دو بجے تک ہوتا تھا، دوستوں یاروں کا شغل تھا۔ مجھے یاد ہے پہلے روز دوکان کا افتتاح ہوا تو گاہک کم پارٹنر زیادہ تھے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ باقی کے پارٹنرز کو گاہکوں کا رویہ جو کبھی کبھار تحقیر پر مبنی بھی ہوتا تھا، شاید کچھ خاص نہیں بھایا اور دوکان مکمل طور پر ہمارے سر آن پڑی۔

دوکان والے دور کی بات ہے، ایک رات شدید سردی کے موسم میں ابا مرحوم کو جانے کیا سوجھی کہ چارسدہ روڈ کی بجائے کابلی تھانے اور قصہ خوانی کے درمیان ایک کھوپچی میں پہنچ گئے۔ پشاور کی سردی شدید ہوتی تھی۔ رات دس بجے جانے کتنا ہی ڈھانپنے کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی جھری ہوا کان تک پہنچانے کا باعث بن ہی جایا کرتی۔ ابا اسی سردی میں گھر جانے کی بجائے بالکل ہی مخالف سمت ایک عدد یخنی کی دوکان پر پہنچ گئے۔ وہاں بہت پیار سے ابا نے مجھے یخنی پلائی۔ مجھے زندگی میں دوبارہ نہ ویسی یخنی نصیب ہوئی نہ ابا کا اس وقت اس لمحے وہ پیار اور وہ شفقت۔ وہ بہت انمول تھی۔

میری انجینرئینگ مکمل ہوئی تو ایک عام پاکستانی جوان کی طرح میری ترجیح بھی والدین کے ساتھ رہنا تھی۔ سال 2007 کے اختتام پر Telecommunications Engineering کی ڈگری ہاتھ میں تھامے پشاور میں ملازمت کیسے ملے گی یہ البتہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ مجھے پاکستان سے باہر نکلے تیرہواں برس ہے لہذا ان کی بات میں دستیاب معلومات اور گمان کی بنیاد پر کروں گا جن کے مطابق ایک عدد Telecom یا Software انجینئر کے لیے پشاور شہر میں نہ تب ملازمت کے خاص مواقع موجود تھے نہ اب موجود ہیں۔ اب میں پشاور میں نہیں، تب البتہ موجود تھا۔ نتیجتا پشاور چھوڑنا پڑا۔

اس کے بعد میرے پاس راولپنڈی اسلام آباد کی یادیں موجود ہیں۔ کم ہیں مگر حسین۔ پہلا بینک اکاؤنٹ، پہلی تنخواہ، پہلی اولاد۔۔ جڑواں شہروں نے مجھے بہت کچھ دیا۔ یہاں مجھے احساس ہوا کہ میں ایک جذباتی انسان ہوں۔ یہیں مجھے اپنی جذباتیت کو سنبھالنے کے لیے مجھے مینٹور دستیاب ہوئے۔ اسلام آباد اب رات کو جاگتا ہے۔ تب ایسا نہیں تھا۔ آغا شاہی ایوینیو کھلی تو اس کی روشنیوں میں بیگم کے ساتھ بائیک پر سفر کرنا بذات خود ایک سیر ہوا کرتی تھی۔ یہ بہت قیمتی یادیں ہیں۔ بہت قیمتی۔

اگلا پڑاؤ دبئی تھا۔ یہاں ایک سال گزارا۔ یہاں پہلی بار سامان ہاتھ میں تھامے آسمان تلے آنے کا تجربہ ہوا۔ یہیں پہلی بار بے بسی کا احساس ہوا۔ یہیں پہلی بار گھر والوں کے بغیر رمضان گزارا۔ یہیں۔۔ ابا کی وفات کی خبر سنی۔ دبئی سے عجمان رہنا ہوا جہاں مزید ایک سال گزارا اور پھر ابو ظہبی۔

اس کے بعد پھر ابو ظہبی کی یادیں ہیں۔ 2014 تا 2020 محمد بن زائد سٹی اور بنی یاس سے ابو ظہبی شہر تک روزانہ کا سفر رہا۔ بچوں کا پہلا سکول یہیں تھا۔ یہاں معلوم ہوا کہ روٹی کپڑے مکان کی struggle سے باہر نکلنا کیسا لگتا ہے۔ ابو ظہبی پہلی بار آئے تو مصفحہ میں واقع طلال خورفکان ریسٹورانٹ میں کھانا کھایا۔ وہ دن اور امارات چھوڑنے سے پہلے تک وہاں موجود ملیالی مصطفی بھائی کے ساتھ جیسے گھر والا تعلق سا ہو چلا۔ یہاں کی مندی کمال ہوتی اس پر باقی کا کمال مصطفی بھائی بھر بھر کر اضافی گوشت سلاد دے کر کیا کرتے۔ رمضان میں پتہ نہیں کون کون سی ڈش سامنے آجایا کرتی۔

زندگی میں دو گھر ایسے رہے کہ جنہیں چھوڑتے ہوئے آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ ان میں پہلا شاہین بازار پشاور کا گھر جہاں کے دروازوں کے پینٹ سے لے کر باتھ روم کے بیسن وطیرہ تک کا رنگ ابا نے ہماری مرضی سے کروایا۔ دوسرا ابو ظہبی کا آخری مکان جس کا سامان ہم نے ایسے بنایا تھا جیسے پرندے تنکا تنکا لا کر گھونسلہ بناتے ہیں۔ کرونا کی وباء نے بھلا کس کی سنی؟ نہیں ملا وقت۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکلنا پڑا۔ فلائٹ بہت مشکل سے چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر ملی تھی۔

8 اکتوبر 2025 کو مجھے آسٹریلیا کی شہریت ملی۔ فطری امر ہے کہ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ یہ خوشی کیوں ہوئی یہ ایک سوال تھا جو شہریت کی تقریب کے وقت میں خود سے کر رہا تھا۔ ایک سفر تھا، طویل سفر جو مکمل ہوا۔ میں نے پاکستان میں رہتے ہوئے کوئی ایسا کام کانڈھ نہیں کیا جس کی وجہ سے مجھے پاکستان چھوڑنا پڑتا۔ مجھے کوئی مجبوری نہیں تھی۔ بس اچانک سے ایک اچھا موقع آیا اور میں پاکستان چھوڑ کر دبئی چلا گیا۔ وہاں سے آگے ایک اور پھر ایک اور۔۔ یعنی اس کے بعد بس ایک کہانی۔

مسئلہ یہ ہے دوستوں۔۔ کہ اوپر کہی گئیں باتیں یا ان کی اکثریت یا تو "پاکستانیت" ہو سکتی ہیں یا پھر nostalgia ہو سکتی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نوسٹیلجیا زیادہ ہیں حب الوطنی کم۔

اور اس کی ایک وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ متواتر تین یا چار سے کم نسلوں کا ایک ہی علاقے میں رہائش پذیر نہ ہونا ہے۔

اس ضمن میں ایک اور بات بتاتا چلوں۔۔

میں ایف جی سکول میں پڑھا ہوں جہاں فوجیوں کے بچے زیادہ ہوتے تھے جن میں سے کافی سارے اچانک سکول میں وارد ہو پڑتے تھے۔ میرا یہ مشاہدہ رہا کہ یہ بچے social bonding میں پیچھے رہتے مطلب ان کا کوئی پکا دوست نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان کے والدین کا ٹرانسفر کبھی کھاریاں سے اوکاڑہ تو کبھی اوکاڑہ سے پشاور ہوتا رہتا تھا۔ میرے بچوں کے ساتھ ایک وقت تک ایسا ہی معاملہ رہا الا یہ کہ مجھ پر کوئی سرکاری دباؤ نہیں تھا۔ بس غم روزگار کے چکر میں پشاور تا راولپنڈی پھر وہاں سے دبئی پھر عجمان پھر ابو ظہبی پھر میلبرن ڈولتا ہی رہا۔ زندگی میں پہلی بار میلبرن پہنچ کر میرے پاس اختیار آیا کہ میں آل اولاد کو لے کر آسٹریلیا میں کہیں بھی چلا جاؤں۔

مجھے۔۔ تسمانیہ سے شاید عشق ہے۔ تسمانیہ میں بھی Hobart سے خصوصی انسیت سی ہے۔ آپ سمجھ لیجئے کہ کابل یا اسلام آباد کے ساتھ سمندر موجود ہو جہاں آپ چاہے جہاں بھی ہوں پانچ سے سات منٹ کی ڈرائیو پر سمندر آپ کا جیسے منتظر ہو۔ میں آج ابھی اس وقت ہوبارٹ جا کر زندگی جاری و ساری رکھ سکتا ہوں مگر۔۔ میلبرن شرق جہاں میں ابھی موجود ہوں وہاں میرے بچوں کی دوستیاں شروع ہوئے چند برس ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے عجمان ابو ظہبی پشاور کراچی کے بعد اب انہیں یہاں سے بھی اٹھا کر کہیں اور لے گیا تو شاید اس دنیا سے کوچ کرتے ہوئے میں بچوں کو سائیکوپیتھ بنانے کا مؤجب رہوں گا۔

یہ سب بتانے کا مقصد؟

شاید یہ کہ نسلی و علاقائی تفاخر سے مجھے چڑ سی ہے۔ میں اس کی وجوہات پر غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ نسلی تفاخر کا سامنا مجھے پشاور میں رہتے ہوئے ہوش سنبھالنے کے بعد 23 برس کی عمر تک کرنا پڑا جب تک میں اس شہر میں رہا۔ اس کے بعد ایسا نہیں ہوا۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ اس کے بعد میں جہاں بھی گیا کسی نے مجھے "پنجابی دال خور" کہہ کر حقارت کا نشانہ نہیں بنایا۔ جنہوں نے پشاور رہتے ہوئے بنایا مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے مجھے یہ احساس ضرور دلایا کہ علاقائیت کو لے کر میں ایک حقیر ترین انسان ہوں۔ میں۔۔ کچھ برس پہلے پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں سے مل کر پتہ چلا کہ castless نامی کوئی گروہ بھی وجود رکھتا ہے۔ احساس ہوا کہ میں وہی ہوں۔ حقیر، کم تر، نسلی تفاخر جیسے تفاخر سے محروم ایک کمی کمین۔ میں کسی مٹی سے عشق میں مبتلا نہیں۔ مجھے مٹی سے جڑے انسان اور ان کے رویے یاد رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔

وطن کیا ہوتا ہے؟ پتہ نہیں۔ آپ مجھے گالیاں دے سکتے ہیں۔ آپ مجھے کم تر جان سکتے ہیں۔ مجھے البتہ "مٹی سے عشق" نامی کوئی عارضہ لاحق نہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید کسی ایک مقام پر تین نسلوں کا رہائش پذیر نہ ہونا ہے۔ کیا یہ میرے اختیار میں تھا؟ نہیں۔ کیا یہ میری چاہ تھی؟ نہیں۔ کیا میں آنے والی نسلوں کو اس بارے میں آگاہی دینا چاہوں گا؟ نہیں۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ بچپن سے جوانی پھر ادھیڑ عمری تک جس امتِ مسلمہ کا ہمیں سبق پڑھایا گیا اسی امت مسلمہ نے عربی و عجمی کی برابری نہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے قانونا حقیر جانا۔ پھر۔۔ ایک سیکولر ریاست نے کاغذوں کی حد تک ہی سہی مگر قابلیت کو بنیاد بناتے ہوئے برابری کا رتبہ دینے کا اعلان کیا۔

مجھے شو آف کرنے کا شوق نہیں مگر چند شکایات ضرور ہیں۔

اگر میرے پاس پشاور میں ملازمت کے ذرائع موجود ہوتے تو کیا میں پشاور میں تیسری نسل نہ پال رہا ہوتا؟ کیا آج کوئی اور معاذ پشاور میں رکنا چاہے گا؟

اگر میں روٹی کپڑا مکان حاصل کر سکتا تو کیا میں اسلام آباد بھٹی صاحب کو چھوڑ کر اپنے اس گھر کو چھوڑ کر جس کی بنیادوں میں شدید گرمی میں بھی ڈالڈا کے خالی کنستر سے پانی ڈالتا رہا، چھوڑ کر جاتا؟

اگر متحدہ عرب امارات مجھے قانونا پی سہی مساوی حقوق دیتی تو میں پاکستان سے پونے دن کی فلائٹ کی دوری پر آسٹریلیا جاتا؟

اور اگر وہ سب جو مجھے بحیثیت انسان پہلے کبھی نہ ملا، ایک ریاست دے رہی ہو تو میں کون سی حب الوطنی کو کیسے زبردستی سماجی دباؤ کے تحت قبول کرنے کو راضی ہو سکتا ہوں؟

ایک اور ہجرت کی تو شاید میں بھی سائیکوپیتھ بن جاؤں۔

میری۔۔ بس ہوگئی ہے۔ وطن کی تعریف مجھ سے نہیں ہوتی اب۔ کیا اس کا قصوروار میں ہوں؟ ہو سکتا ہے میں ہی ہوں۔ ہوں بھی تو مسئلہ نہیں۔ آپ مجھے غدار کہہ سکتے ہیں۔

میرے پاس کوئی حب الوطنی موجود نہیں۔ ہاں۔۔ نوسٹیلجیا کے نام پر بہت سی محرومیاں ضرور موجود ہیں۔

Im a fücking Alien۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali