Bahawala Joint Family System
بحوالہ جوائینٹ فیملی سسٹم

بھیا ایسا ہے کہ۔۔ میری دانست میں انسان بنا ہے بیس بائیس یا پچیس سال کے بعد والدین کے سائے سے باہر آنے کے لیے، اس کے بعد۔۔ اپنی زندگی اپنی ٹرمز پر گزارنے کے لیے، نقصان اٹھا کر سیکھنے، سیکھ کر نقصان اٹھانے اور پھر سے نقصان اٹھا کر سیکھنے کے لیے۔ اس دوران نقصان اٹھانے کی فریکوینسی کم ہوتی رہتی ہے، سیکھنے کی بڑھتی رہتی ہے۔
انہی سب نقصانوں اور سیکھنے میں اچھا خاصہ ہاتھ ایک انسٹیٹیوشن شادی کا بھی ہے۔
ہمارے یہاں کافی کچھ الٹ ہوتا ہے۔ اولاد ہمارے یہاں مڈل کلاس میں جو کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ ہے، اپنے فائنانسز کے ضمن میں عملاً انوسٹمنٹ پلین کے طور ٹریٹ کی جاتی ہے۔ اخے بچہ بڑھاپے میں والدین کا سہارا بنے گا۔ یہ ایک سائیکل ہے جو نسل در نسل چلتی آرہی ہے۔ اس میں مزید ایڈ کر لیں ہمارے فکری تضادات۔ ایک جانب اولاد ہمارا انوسٹمنٹ پلین ہے جو آخری عمر میں میچیور ہو کر ہمیں سنبھالے گی، تو دوسری طرف ہم بچوں کو فطری طور پر خوش بھی دیکھنا چاہتے ہیں خود مختار بھی۔ یہ منطقی طور پر ممکن ہی نہیں۔ وہ اولاد جو بڑھاپے کے سہارے کے طور پر بڑی کی گئی وہ زبردستی یا کنڈیشننگ کے نتیجے میں"خوش" ہونے کا تصوراتی خول تو چڑھا سکتی ہے مگر فریش سٹارٹ نہ ہونے کے باعث خود مختاری تک پہنچتے پہنچتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں وہ بھی اگر عقل مند ہوں street smart ہوں اور سیکھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
پاکستان میں شادی کی اوسط عمر شاید بتیس پینتیس سال ہے۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں ڈیٹا نہیں میرے پاس تاہم ارد گرد کے لوگوں کو دوستوں کو دیکھ کر یہی اوسط دکھائی دیتی ہے۔ چوبیس سال کی عمر میں آپ کمانے کے قابل ہوئے، اگلے چھ سال آپ نے گھر بھی سنبھالنا ہے اور شادی کے لیے جو بلاوجہ کے خرچے ہوتے ہیں ان کے لیے بھی پیسہ جمع کرنا ہے۔ اس دوران آپ مینٹلی ڈرین الگ ہو رہے ہوتے ہیں فائنانشلی الگ بس نوٹ جمع کر رہے ہوتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ جب تک آپ مطلوبہ رقم اکٹھی کریں گے انفلیشن اس کی ویلیو کم کر چکی ہوگی۔ اسی دوران والدین کے ساتھ رہ کر ان کا جو اثر آپ پر رہتا ہے وہ لامحالہ آپ کی ازدواجی زندگی پر پڑ کر رہتا ہے۔ ایسے میں شادی کے بعد پرانے اور نئے رشتوں کے بیچ ایک تناؤ کی کیفیت کا شروع ہونا بہت فطری ہے۔
اور اس سب میں مالی، فکری خود مختاری کہاں گئی؟
کھڈا نمبر چار میں۔
اب بہت سے لوگوں کو خیال آئے گا کہ خود مختاری کے چکر میں والدین کے بڑھاپے کو کیسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے؟
اس کا جواب وہی ہے، کہ یہ ایک سائیکل ہے جو نسل در نسل چلتا چلا آرہا ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس کا ممکنہ حل بہرحال موجود ہے، جس کی شروعات ہماری نسل سے ہو سکتی ہے۔ بلکہ۔۔ ہو کر تو یہی رہنا ہے جو میں بتانے والا ہوں، آپ پر ہے کہ اسے طوعاً قبول کریں یا کرہاً۔۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ایسی باتیں کہنا آسان ہے سب کے لیے کرنا ممکن نہیں تاہم یہ معاملہ تو ہر جگہ نافذ العمل ہے۔ کوئی ایک اصول سب پر لاگو نہیں ہو سکتا، ہاں ایک بلیو پرنٹ ضرور رکھا جا سکتا ہے جس پر حتی الامکان عمل کرنا چاہیے۔
ہمیں ایک سائیکل بریک کرنا ہے۔ یا خود کر لیں یا اولاد کو کرنے کا موقع دیں۔
مالی خود مختاری اگر والدین کسی وجہ سے حاصل نہیں بھی کر پائے تو آپ اس کے لیے کوشش کریں۔ اگر تو خود پچیس چھبیس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، والدین فائنانشلی سٹیبل ہیں تو نکلیں گھر سے، اپنی مالی خود مختاری خود حاصل کریں۔ اپنی آمدن کا کچھ نہ کچھ حصہ کہیں نہ کہیں لگاتے رہیں جمع کرتے رہیں ایسی جگہ جو انفلیشن کو بیشک ہرا نہ سکے، اس سے نبرد آزما ضرور رہ سکے۔ اگر والدین مالی طور پر خود مختار نہیں تو اپنی اولاد کو گریجویشن کے بعد دنیا کے تھپیڑے کھانے چھوڑ دیں۔ آپ جتنا انہیں اپنے سائے میں رکھیں گے وہ نقصان اٹھا کر سیکھنے سے قاصر رہیں گے، انہیں بہت عرصے تک سمجھ نہیں آ سکے گا کہ دنیا کیسے آپریٹ کرتی ہے، انسان کیسے پرکھا جاتا ہے، ریڈ فلیگز کیا ہوتے ہیں، ویسے ہی جیسے مجھے اور آپ کو بہت عرصے بعد سمجھ آیا بلکہ اب بھی سو فیصد نہیں سمجھ سکتے۔
پچیس سے پینتیس تک بچوں کو دنیا میں بھیج دیں۔ اس میں شادی بھی شامل ہے۔ بچوں کو اپنی زندگی خود سمجھنے دیں۔ اس دوران اولاد کے ساتھ متواتر رابطے میں ضرور رہنا ہے۔ پینتیس چالیس تک پہنچ کر بچے کو کافی کچھ بشمول اپنی عائلی زندگی اور اس میں غلطی سے یا جان کر دبائے جانے والے اچھے خاصے بٹن معلوم ہوں گے جن کا اچھا برا اثر معلوم ہوتا ہے۔
پینتیس چالیس کے بعد ہو سکے تو دوبارہ اکٹھے رہ لیں۔ یہ البتہ میرا اندازہ ہے گمان ہے خیال ہے کہ یہ والا اکٹھ اس اکٹھ سے بہت مختلف ہوگا جو انہیں اپنے سائے میں رکھتے ہوئے چلتا ہی چلا جاتا ہے۔ بہت ساری جگہوں پر اولاد کو آپ کی قدر ہوگی۔ بہت سی جگہوں پر آپ کو اولاد کی قدر ہوگی۔ بہت ساری جگہوں پر اولاد کے لائف پارٹر کو آپ کی آپ کو ان کی قدر ہوگی۔ پینتیس چالیس کی عمر میں جذباتی طور پر بھی میچیور ہوچکے ہوں گے۔
یہ تمام سوچ جنس سے بالاتر ہوکر میرے خیال سے قابل عمل ہے۔ بیٹیوں کو لے کر بہت سے لوگوں کے ذہن میں جو خدشات ہوتے ہیں وہ میرا موضوع نہیں لیکن میں پوری ذمہ داری کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ آج کل کے بچے بہت سمجھدار ہیں۔ اگر آپ کی تربیت میں کوئی میجر سقم نہیں رہا تو بچہ ہو یا بچی اپنا راستہ خود ڈھونڈ لے گا/گی۔
ہمارے یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ جی بیٹیوں کے گھر نہیں رہنا۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ اگر زندگی رہی تو میں تو بغیر کسی ٹینشن کہ بیٹی کے پینتیس کی عمر تک پہنچنے کے آس پاس ان کے ساتھ دھڑلے سے رہ لوں گا اگر اگر اگر۔۔ اس کا گھر یا اس کا نصف اس کی ذاتی ملکیت ہو اور میری آمدن اس عمر میں بھی اس کے آس پاس ہو اور میں ایک گھر کے اخراجات میں پوری طرح حصہ ڈال سکوں۔ بیٹی یا بیٹے کی پینتیس کے آس پاس عمر کو پہنچنے تک ان کا گھر نہ ہو، میرے پاس ہو تو بسم اللہ، میرے ساتھ آجائیں بشرطیکہ اخراجات میں حصہ ڈال سکیں۔
جوائینٹ فیملی سسٹم کے حوالے سے آج اس وقت میرے خیالات کچھ یہی ہیں۔ کل بدل جائیں تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔
وما علینا الا البلاغ

