Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Apne Hisse Ki Gobhiyan

Apne Hisse Ki Gobhiyan

اپنے حصے کی گوبھیاں

بات اتنی سی ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو اپنے اپنے حصے کی گوبھیاں مل ہی جاتی ہیں۔

آپ ابو جہل کا کردار پکڑ لیں، اپنے دور میں اس کے ماننے والے بھی موجود ہی تھے۔ موجود آج بھی ہیں بس آپ نے یوٹیوب پر ایک دو بندوں کے ساتھ بحث میں ابو جہل کو برائی کا استعارہ بنا کر پیش کرنا ہے، اگلے کسی نہ کسی خنس میں اس کو بھی سر پر بٹھا لیں گے۔ یزید کو پکڑ لیں، اس کے پاس بھی آج تک اپنے حصے کی گوبھیاں موجود ہیں۔ ہٹلر کو دیکھ لیں، اس کے چاہنے والے تب بھی تھے، آج بھی ہیں، بس بندے کھنگالنے کی دیر ہوتی ہے۔ نیتن بینجمن کو دیکھ لیں، اس کے گن تو آپ کے لیے وسیم الطاف اور ارشد مودا ہی گا لیں گے۔

لہذا۔۔ اس بات پر دل جلانا چھوڑ دیجئے کہ فلاں بندہ فلاں چتو کے حق میں اتنا کچھ ہونے کے باوجود باجے بجا رہا ہے۔ قوالی اچھی ہو یا بری، طبلہ نواز کا کام قوال کے پیچھے پیچھے طبلہ بجانا ہوتا ہے۔ گانا اچھا ہو برا، ہیرو ہیروئن کے پیچھے کھڑے "آہو نی آہو" یا "شاوا وے شاوا" گانے والے نظر آ کر رہتے ہیں۔ میں خود کسی نہ کسی کے لیے گوبھی ہوں گا، آپ خود کسی نہ کسی کے لیے گوبھی ہوں گے۔ ہماری عقیدت، لحاظ، نظریات، برادری، دوستی، یاری، تعظیم۔۔ کہیں نہ کہیں ایک لکیر سے آگے نکل کر ہمیں تعصب کا اسیر کر ہی دیتے ہیں۔ پھر اس میں ہماری cognition کے systematic errors یا biases شامل کر لیں تو یہ ہماری فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔

ہاں میں ذاتی حیثیت میں ایک حد تک اس بات کو عقیدہ سمجھتا ہوں کہ اپنے تعصبات کو حق کے حق میں نتھ ڈالنے کی کوشش ہی اس دنیا میں ہمارا امتحان ہے، اگر یہ دنیا ایک امتحان ہے تو۔ روز محشر ہمارے دماغوں کو دیے گئے فیصلے کے اختیار پر ہی یا اختیار پر بھی ہمیں پرکھا جائے گا، اگر کوئی حساب ہوا تو۔۔

کچھ مسائل آگے بڑھنے کی خواہش کے بھی ہوتے ہیں۔ یہ خواہش بھی فطری ہے، پھر کوئی کتنا ہی درویش و ولی اللہ نہ بن جائے۔ آگے بڑھنے کے لیے پھر انسان بہت تردد کرتا ہے، محنت بھی کرتا ہے اور جہاں ممکن ہو شارٹ کٹ بھی نکالنے کی کرتا ہے۔ کسی کا شارٹ کٹ اچھا ہوتا ہے، کسی کا برا، مگر اچھا ہو یا برا ہوتا دوسروں کی نظر میں ہے۔ اپنی نظر میں جو حکمت عملی کارگر ہے وہی اچھی ہے۔ اس کا حساب بھی روز محشر اسی ضمن میں ہوگا کہ بندہ اپنے تعصبات حق کے حق میں کس حد تک قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ ہاں لیکن اگر آگے بڑھنے کی حکمت عملی کارگر ثابت ہو رہی ہو، تو امتحان کی کون سوچتا ہے، اچھے برے کی پرواہ کون کرتا ہے؟

قصہ مختصر۔۔ بزنس ماڈل میں معمولی یا غیر معلومی تبدیلی اگر آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہو تو عقائد سے لے کر حق باطل کی ابحاث ضمنی بن جایا کرتی ہیں۔ اس کی بہترین حد تک بدترین مثال۔۔ کینسر راجے کی ہے۔۔

آپ کچھ عرصہ قبل پانچ ہزار روپے ماہانہ کے عوض تین ماہ کا انگریزی بولنے کا کورس بیچا کرتے تھے۔ پھر آپ نے قاسم علی شاہ بننے کی ٹھانی۔ کچھ عرصہ آپ لائف ٹرینر نامی کوئی شے بھی رہے۔ بعد ازاں آپ نے NLP پر بھی طبع آزمائی فرمائی۔ آپ سٹاک مارکیٹ کا گیان بھی پیلتے رہے۔ تاہم۔۔ ان سب کاموں میں مگر آگے بڑھنے کی رفتار ذرا سی سست تھی، مانو گھونگے سے بس ذرا سی تیز۔ پھر آپ نے حکمت عملی کو فرسودگی کی آمیزش سے روشناس کروا کر جدت سے ضرب دی اور آج وہاں پہنچ گئی جہاں ہیں۔ پہلے آپ انگریزی کا کورس بیچا کرتے تھے، اب آپ زہر فروشی کا کاروبار کرتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کاروبار میں یہ جدت آپ کے آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوئی۔

اس کے آگے کل ملا کر بس وہی بات۔۔ جو بات بس اتنی سی ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو اپنے اپنے حصے کی گوبھیاں مل ہی جاتی ہیں۔

وما علینا الا البلاغ

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam