Aam Insan Aur Khas Halaat
عام انسان اور خاص حالات

گزشتہ ایک ماہ سے کھانے میں گوشت کی مقدار میں قابل ذکر کمی آئی ہے جس کی وجوہات پر پھر کبھی بات کریں گے۔ فی الوقت dietician کی جانب سے وضع کردہ ڈائیٹ پلین ہے جو چونکہ ہم سبھی کو سوٹ کرتا ہے تو ہم نے اپنا لیا۔ دو دن سبزی، دو دن مچھلی، دو دن ککڑ اور ایک دن لحم۔۔ تنوع اچھا چل رہا ہے۔
گزشتہ اتوار گوشت خوری کا ہفتہ وار موقع تھا۔ میرا ارادہ تو کپوروں کا تھا مگر ملے نہیں۔ طے ہوا، قیمے کی پیٹیز بنا کر برگر میں ڈال لیں گے اور کہیں فشنگ پر نکل جائیں گے۔ مجھے یہ انگریز مارکہ برگر نہیں پسند سو میرے لیے شامی کباب والے بن کباب ہو گئے۔
اس دن BCF سے نارمل گنڈوئے نہ مل سکے سو ہم چھوٹے والے جھینگے اٹھا لائے۔ فشنگ کے لیے ہم نے کوئی پون گھنٹے دور ایک جھیل water reservoir کا انتخاب کیا اور پہنچ گئے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے موقع پر دور کہیں کھوپچی پکڑ کر بیٹھا جائے، وقتاً فوقتاً سوٹے مارتے ہوئے مچھلی پکڑنے کی کوشش جاری رہے۔ اب کچھ ایسا ہی سکون پسند آتا ہے۔ سو ہم گاڑی پارک کرکے نیچے جھیل کنارے پہنچ گئے اور کرسیاں چٹائی ڈال کر بیٹھ گئے۔
ابھی بیٹھ کر سیٹنگ بنا کر فشنگ لائن بنانی شروع کی ہی تھی کہ پیچھے سے کوئی نصف درجن بچوں کا جھنڈ نیچے اتر آیا۔ ازبک ساخت کے یہ بچے دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ استاد گوانڈیوں نے دھاوا بول دیا ہے۔ بچوں نے آتے ہی شروعات پانی میں وٹے پھینکنے سے شروع کی جس سے مجھے کوئی شدید قسم کی چڑ ہے۔ بیگم اور بچے مجھے زیرلب بڑبڑاتی گالیاں کڈتے دیکھ کر ہنسنا شروع ہو گئے۔ کچھ تاکیدات بھی موصول ہوئیں کہ جانے دو بچے ہیں مگر میرا پارہ اب چڑھنا شروع ہوچکا تھا۔
اور عین اس وقت جب میں کوئی شدید ترین تپ تک پہنچ چکا تھا۔۔ ان میں سے ایک بچے نے میرے پاس آ کر نہایت معصومیت سے کہا۔۔
"Can we please fish with you guys?"
بس۔۔ یہاں لونڈا پگھل جاتا ہے۔ کوئی پیار سے بات کرے اور بات کرنے والا معصوم آٹھ نو سالہ بچہ ہو تو پھر آگے چالیس سالہ بزرگ کیا ہی بات کرے؟
میرے پاس پانچ راڈز تھیں، تین الحمد للہ فارغ ہوچکی تھیں۔ دو کی ریل ٹوٹ چکی تھی، ایک کی راڈ کا نصف گاڑی میں رہ گیا تھا۔ پیچھے بچیں دو قابل استعمال راڈز۔ اب تک تین چار چھوٹی بچیاں بھی پہنچ چکی تھیں۔ ان کی فرمائش الگ کہ ہم نے بھی فشنگ کرنی ہے۔ سب بچوں کے بات کرنے کا طریقہ نہایت ہی مہذب تھا۔ مطلب ایکسٹرا مہذب۔
خیر۔۔ میں نے دو راڈز تیار کرکے ایک ایک بچہ پارٹی کو دے دی۔
کچھ ہی دیر میں دو مرد اور دو خواتین بھی آن پہنچے۔ سلام دعا شروع ہوئی۔ یہ لوگ غزنی سے آئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر پندرہ برس سے یہیں تھے۔ کچھ البتہ حال ہی میں گزشتہ ایک برس کے اندر آئے تھے۔ پشتون روایتی لباس زیب تن کیے، چادریں اوڑھیں یہ دونوں خواتین کوئی شدید ملنسار سی معلوم ہوئیں۔ شکر یہ ہوا کہ روایتی برصغیریوں کی طرح خواتین اور مرد اٹھ کر الگ الگ نہیں ہوئے، وہیں ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ میں نے بتایا کہ چند ماہ میں بھی کابل رہ چکے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمیں تمہارا ملک بہت پسند ہے، ہم رہ چکے ہیں وہاں۔ ایک نے کہا یار پاکستان پہلے بہت اچھا ملک ہوتا تھا رہنے کے لیے، اب کیا ہوا؟ میرا جواب تھا۔۔ بھائی پاکستان ایسا ہی ہے۔ کبھی اچھا لگنے لگتا ہے تو کبھی خون کھولانے لگتا ہے۔۔ ویسے ہی جیسے۔۔ افغانستان۔
یہ لوگ کچھ دیر بیٹھے رہے پھر چلے گئے۔ کچھ بچے چلے گئے، کچھ وہیں رہے۔
میں نے ارحم کو ڈرائیونگ سکھانی تھی اور یہ اس کام کے لیے بہترین مقام تھا۔ پچاس کی سپیڈ لمٹ، پانچ چھ مناسب خم والی سڑک، ٹریفک کم۔ ارحم کی یہ دوسری کلاس تھی۔ میں اور ارحم نکل گئے ڈرائیو پر۔
گھنٹے بعد واپس آئے تو ایک اور لیٹ ٹین ایجر بچی بیگم اور بیٹی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈاکخانے ٹائٹ والے ملائے ہوئے تھے خواتین نے اور گل والی گپ جاری تھی۔ فشنگ راڈز فارغ ہوچکی تھیں۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنا بن کباب لپیٹا اور پھر واپسی کی تیاری شروع کر دی۔ کچھ ہی دیر میں وہ بچی بھی اٹھ کر واپس چلی گئی۔ وہ بھی حال ہی میں یہاں آئی تھی اور فی الوقت تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ آگے جا کر اس کا ارادہ وکٹوریا پولیس جوائن کرنے کا تھا۔
واپس جاتے ہوئے ازبک ساخت بچوں کا جھنڈ دوبارہ نیچے آیا۔ اس بار ان میں سے کسی ایک زرخیز دماغ نے ایک نیا کارنامہ کر دکھایا تھا۔۔ مستقبل کے کسی ایک جوان نے کہیں سے فشنگ کی ڈور ڈھونڈی اور اسے لکڑی کے ڈنڈوں سے باندھ کر فشنگ راڈ تخلیق کر ڈالی تھی اور اب باقی کا لشکر اس سپاہ سالار کی امامت میں مچھلی پکڑنے دوبارہ جھیل پر لشکر کشی کو تیار تھا۔ اب ان کو چاہیے تھی بیٹ، جو میرے پاس جھینگوں کی شکل میں موجود تھی۔ وہ میں نے بچوں کو دی اور ہم سامان اٹھا کر واپس گاڑی کی طرف چل پڑے۔
عام انسان، عام حالات میں ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بچوں کو ساتھ لیے کسی جھیل کنارے مچھلی پکڑنے، بن کباب کھانے، باتیں کرنے اور پھر گھر کو واپس نکل کر اگلے روز کام دھندے کی تیاری کرنے والے۔
دوبئی پہنچ کر فیملی کو بلاتے مجھے سال ایک لگ گیا تھا۔ اس عرصے آفس سے واپس آنے خاص کر جمعے والے روز ہم بردبئی میں یارک ہوٹل اور فہیدی کے بیچ انّا کے ڈھابے پر رات دو بجے تک بیٹھ کر چائے کھانے میں لگے رہتے۔ ٹھیک دو بجے درگاہ یارک شریف اور درگاہ ریگل شریف کی چھٹی ہوتی مطلب وہاں کے کلب بند ہوتے۔ پھر اس علاقے میں سجتی جسم فروشی کی منڈی۔ ہم سبھی نئے آئے تھے۔ پہلے چھ سات ماہ کسی کے پاس گاڑی بھی نہیں تھی اور ابھی قدم بھی جمانے تھے۔ پھر۔۔ میرے علاوہ کوئی شادی شدہ بھی نہیں تھا تب تک اور جو چھڑے تھے ان میں سے دو کے علاوہ سب کو امیوں نے قسم دے کر بھیجا تھا پٹھا کام نہیں کرنا۔ جو دو فزیکل ریلیشن شپ کا تجربہ رکھتے تھے وہ اس کے کمرشل ٹرانزیکشن ہونے کے خلاف تھے۔ قصہ مختصر۔۔ ویک اینڈ پر ہمارا مشغلہ خاص کر پہلے چھ سات ماہ میں بس یہی کھانا پینا اور پھر دو بجے کے بعد صبح ساڑھے تین چار بجے تک اس منڈی کی commercial negotiations دیکھنا ہوتا تھا۔ اس دوران ہم نے دو باتیں نوٹ کیں۔
جس خاتون کا رنگ پکا ہو وہ اپنے آپ کو "بھارتی" بتایا کرتیں۔ جو خاتون روس و گرد و نواح کی ریاستوں سے تعلق رکھتیں وہ اپنا آپ ڈی فیکٹو "یوکرائن" سے بتایا کرتیں۔ چین جاپان کے علاقے والی خاتین خود کو "کورین" بتایا کرتیں۔ عربوں میں البتہ لبنانی کا سکہ چلتا۔
اور اسی بنیاد پر ہم دوستوں یاروں میں دنیا کے سب سے قدیم پیشے اور علاقائیت کے درمیان کچھ منطقی مغالطے biases قائم ہو گئے جنہیں ختم کرتے اور unlearn کرتے کچھ وقت لگا۔
نوے اور دو ہزار کی دہائی جس نے پشاور میں گزاری ہے اسے اچھی طرح سے یاد ہوگا کہ افغان کس حال میں پائے جاتے تھے۔ اس وقت شہر میں تین چار طبقات ہوتے تھے جن میں فوجی، ڈیفینس اور حیات آباد کی عوام، ہم مڈل کلاسیے شہری، گاؤں سے تازہ تازہ شہر آئے ہوئے لوگ اور۔۔ افغان۔ ان سب کے معاشی حالات بھی اسی ترتیب میں بہترین تا بدترین ہوا کرتے تھے۔
کچھ معاشرتی برائیوں کے اوپر ہم نے اتنا کام نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے۔ ان میں سے ایک نسلی تعصب ہے۔ اس پر بہت بات ہوچکی لہذا دوہرانے کا فائدہ نہیں۔ افغانوں سے متعلق ہمارے خیالات اس وقت بھلا کیا تھے؟ میں یاد دلائے دیتا ہوں۔
یہ بات عام تھی کہ روسیوں نے افغان خواتین کو تواتر کے ساتھ جنسی زیادتی کا شکار بنا کر ان سے روسی اولاد پیدا کی۔ پھر ایک اور (غالباً نسلی) اصطلاح تھی "گیلم جم" کی۔ گلی محلوں میں افغان غیر افغان لڑکے اکٹھے کرکٹ کھیلا کرتے۔ افغان بچوں جن میں برف مانگنے والوں سے لے کر کرکٹ کھیلنے والے سبھی شامل تھے، ایک حقارت سے دیکھا اور پکارا جاتا تھا۔ پاکستانی لڑکے ذرا سی بات پر افغانوں کو گیلم جم سے لے کر جانے کون کون سی خرافات بکنا شروع کر دیتے جس کا مرکزی خیال وہی روسیوں والی روایات رہا کرتیں۔
معاف کیجئے گا، بات ذرا کڑوی محسوس ہوگی مگر ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر نکالا گیا نتیجہ ہے۔
جی ہاں۔۔ ریاست نے اپنی سرحدیں اتنا ہی سوچ سمجھ کر افغانوں کے لیے کھول دی تھیں جتنا سوچ سمجھ کر ہم نے اس دور میں یا اس کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔
لیکن۔۔
پاکستان میں ہم سے جہاں ہو سکا جتنا ہوسکا انہیں ایک ٹرانزیکشن کی طرح ہی استعمال کیا۔ کئی افغان مہاجر مل کر گھر کرائے پر لیتے تھے۔ ہمیں یہ سوٹ کرتا تھا، ہم انہیں پاکستانیوں کی نسبت مہنگے کرائے پر گھر دیتے۔
It was mutual benefit, mostly. The racial discrimination we unleashed upon them and had it continued for decades wasnt.
کہانی کا سبق؟
معذرت چاہوں گا۔۔ جیسے تمام پاکستانی دو نمبر نہیں ہوتے، جیسے تمام عرب عیاش نہیں ہوتے، جیسے تمام مسلمان دہشتگرد نہیں ہوتے۔۔ ویسے ہی۔۔ تمام افغان نمک حرااام یا احسان فراموش بھی نہیں ہوتے۔
اور جو ہوتے ہیں ان کے لیے پاکستان میں رہتے ہوئے socio-economic factors پر ایک گھڑی سوچنا ضرور چاہیے۔
عام انسان، عام حالات میں ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بچوں کو ساتھ لیے کسی جھیل کنارے مچھلی پکڑنے، بن کباب کھانے، باتیں کرنے اور پھر گھر کو واپس نکل کر اگلے روز کام دھندے کی تیاری کرنے والے، پیارے اور بے ضرر۔
جنگ کے دوران عام انسان کیسے بدلتے ہیں، اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے، ابھی تازہ دو جھڑپوں سے ہو کر گزرے ہیں ہم۔

