Sirf Aik Ramzan Ka Mahina
صرف ایک رمضان کا مہینہ
آج تیسرا روزہ ہے۔ رمضان کا مہینہ مومنین کے لئے تربیت کا مہینہ ہوتا ہے کہ ان میں استقامت پیدا ہو اور اس بات کا خیال دل میں جاں گزیں ہو کہ وہ تمام لو گ جو اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے کن مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، بعض اوقات فاقوں تک نوبت آ جاتی ہے۔ دین بنیادی طور پر تمام نوعِ انسانی کو ایک پلیٹ فارم پر لےآتا ہے اور اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔
قرآن کریم کا آغاز ہی ان انقلاب آور الفاظ سے ہوتا ہے کہ "الحمدُ للہِ رب العالمین" کہ اللہ تمام نوعِ انسانی کا رب ہے رب کا مطلب ہے پا لنے والا، ہر زی روح کے رزق کی ذمہ داری رب پر ہے۔
"رزق" کے لفظی معنی ہیں وہ سامانِ نشوونما جو بر وقت مل جائے۔ پوری کائنات پر نظر دوڑائیں تو ہر ذی روح کے رزق کی ذمہ داری رب پر عائد ہوتی ہے۔ مویشی تو تھوڑی دور تک چل کر اپنا رزق لے سکتے ہیں لیکن مہاجر پرندے پانچ پانچ ہزار میل کا سفر طے کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ ان کی ساخت اس طرح کی رکھ دی گئی ہے کہ وہ با آسانی اتنا سفر طے کر سکتے ہیں۔
تمام کائنات میں تمام ذی روح قدرت کی وحی کے مطابق اپنا کام کئے چلے جاتے ہیں، لیکن جب باری انسان کی آتی ہے جس کے لئے رب نے اس زمین میں بے پناہ خزانے رکھ دئیے ہیں لیکن اس کو اختیار اور ارادہ کی قوت دے کر اس کو اس قدر آزادی عطا کر دی کہ اس نے زمین کے خزانوں کو اپنی ذاتی ملکیت بنالیا جس کی پیداوار کو بنی نوعِ انسان کے لئے کھلا رہنا چاہیے تھا۔
پھر جس جس کا بس چلا اس نے زیادہ سے زیادہ سمیٹنا شروع کر دیا، بس پھر کیا تھا؟ کچھ انسان اربوں کے مالک بن بیٹھے اور کچھ روٹی کے لئے اپنے ہی جیسے انسانوں کے دستِ نگر بن گئے۔ یہی غیر منصفانہ تقسیم تھی جس کو ختم کرنے کے لئے رب اپنے پیغمبر بھیجتا رہا۔ انسان کچھ دیر تو اس پر قائم رہتا، پھر دوبارہ اپنی روش پر آ جاتا!
ہمارے باورچی خانہ میں ناہید کام کرتی ہے وہ رمضان میں بہت خوش ہوتی ہے۔ وہ مجھے سے باتیں کر رہی تھی کہ اللہ رمضان میں اپنے کسی بندے کو بھوکا نہیں رکھتا، اس کا کوئی نہ کوئی سبب بنا دیتا ہے۔ اس بے چاری کو کیا پتہ کہ رب تو کبھی بھی انسان کو بھوکا نہیں رکھتا!
اُمتِ مسلمہ دراصل سال کے ایک مہینہ میں حقیقتاً مسلمان ہوتی ہے اور ہر کوئی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ راشن دئیے جاتے ہیں اور رمضان کے اس مہینہ میں کم از کم غریب کسی حد تک روٹی کی فکر سے آزاد ہوتا ہے۔
کاش اُمتِ مسلمہ یہ سمجھ سکتی کہ رب نے انسان کی ربوبیت کی ذمہ داری اس کی پیدائش سے ہی لے لی ہے۔ یہ زمین کسی انسان کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی اس میں بے پناہ رزق نوعِ انسانی کے لئے کھلا موجود ہے لیکن انسان نے زمین پر زاتی ملکیت کا دعویٰ کرکے انسان کو انسان کا روٹی کے لئے محتاج بنا دیا، یہ کچھ نظامِ سرمایہ داری نے کیا!
اللہ قرآن میں انسانوں سے کلام کرتا ہے وہ سورہ الملک میں کہتا ہے
ءّ اّمِنتُم مُن فِی السماءِ اّن یّحسِفّ بِکُم الا رضّ فّازّاھِی تّمُورُ 16;67
کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے (کیا تم خدا کے قانون مکافات سے بالکل بے خوف ہو جاتے ہو؟ زرا سوچو کہ اگر وہ ان معاشی سہولتوں کو ختم کر دے، تو زمین گرد و غبار (بنجر) بن کر رہ جائے گئی۔)
اگر خدا ساری زمین کو بنجر کر دے تو ہمارا کیا حال ہو؟
اقبال ایک صدی پہلے کیا خوب کہہ گیا
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تا ریکی میں کون؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اُٹھاتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آفتاب
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
خدایا! یہ زمین تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
یہ زمین ہے تو اللہ کی لیکن انسان ذرائع رزق پر قابض تو بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے وہ سب اس کا اپنا ذاتی ہے۔ ایک رمضان کا مہینہ ہوتا ہے جب غریب کی جھولی میں زکوٰة ڈال کر امیر اپنے لئے رب کو رشوت دے کر جنت خریدتا ہے!