1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Seeru Fil Arz

Seeru Fil Arz

سیرو فی الارض

پیر صاحب چالیس دن سے اپنے حجرو میں تھے، ان سے ملنے ان کے مرید آِئے تو انہیں کہاگیا کہ پیر صاحب " سیرو فی الارض " کا چلا کاٹ رہے ہیں۔ قرآن شریف کی آیت سورت العنکبوت کی آیت 20 میں ہے کہ "سیرو فی الارض "کہ زمین میں چلو پھرو، سیاحت کرو اور رب کی قدرت کو تلاشی کرو۔ جب یہ آیت پیروں، فقیروں کے ہتھے چڑھی تو وہ اپنے حجروں میں بیٹھے بیٹھے پوری دنیا کی سیر کر آتے ہیں۔ اب حکومت ہم سے بھی کہے گئی کہ گھروں میں بیٹھے بیٹھے "سیرو فی الارض " کر لیں کیونکہ ہم میں حالات سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

سانحہ مری ایک ایسا حادثہ ہے جس میں دل خون کے آنسو روتا ہے، نرف باری دیکھنے کے لئے پہلے بھی لوگ سردیوں میں ہی جاہا کرتے تھے، جون میں تو برف باری نہیں دیکھی جا سکتی۔ واضح رہے کہ 6اور 7 جنوری کی رات کو مری میں برفانی طوفان اور رش کے باعث 23 افراد اپنی گاڑیوں میں انتقال کر گئے۔ انتقال کرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد شامل تھے۔ سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ناقص پلاننگ دیر سے فیصلے سانحہ مری کی اہم وجہ ہیں۔

برف اور درخت ہٹانے کے لئے مشینری کا موقع پر نہ ہونا بھی سانحہ کی وجہ بنے۔ مری بھیجا گیا ٹریفک اسٹاف بھی برف باری سے آگاہ نہ تھا۔ ٹریفک پولیس کے پاس ضروری چیزیں بھی نہ تھیں۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ریسکیو اسٹاف بھی بر وقت کرین کا بندوبست نہ کر سکا۔ سرکاری افسران کاغذی کاروائیوں میں مصروف رہے، سانحہ سے قبل مری میں دوبار برف باری ہوئی اور ایک بار ٹریفک جام ہوا لیکن انتظامیہ کو ہوش نہ آیا، جمع کی صبح 11 بجے سے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے، اور جمعہ کے بعد خوفناک ٹریفک جام نظر آیا۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ مری میں ٹریفک اژدہام کے باوجود، مزید گاڑیوں کی انٹری نہ روکی گئی، جمعہ کی شام بجے گاڑیوں کی انٹری روکنے کا کہا گیا، ڑپٹی کمشنر اور اعلیٰ افسران دن کے بجائے رات 10 بجے پہنچے، کمیٹی کے مطابق ڈی سی اور سی پی او نے 7 جنوری سے پہلے کوئی وارننگ جاری نہیں کی اور الزام لوگوں پر لگایا جاتا ہے کہ انھییں شدید برف باری میں گھروں سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی، وزیرِ اعلیٰ نے کئی اعلیٰ افسران معطل کیے لیکن کیا اس سے وہ دھبہ مٹ پائے گا جو سیاحت کے حوالے سے پاکستان کے دامن پر لگا۔

دورِ فاروقی میں جب جیوشِ اسلامیہ کو فتو حات حاصل ہو رہی تھیں اس وقت مملکت کو دو ایسے ہولناک حوا دثِ سماوی نے گھیر لیا، جن کا سدِ باب کسی کے بس میں نہیں تھا۔ قرآن کریم میں قصہ آدم کے تمثیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ و علمہٰ آدم الا سماء کلھا۔ خدا نے انسان میں تمام اشیاء فطرت کے مطابق علم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی۔ کہی ایک مقا مات میں کہا کہ و سحرٰ لٰکم ماّ فی اسموٰ ت وٰ ما فی الارض جمعیعاٰ منہُ۔ کائنا ت کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے ہم نے اسے قوانین کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے کہ انسان اسے اپنے اپنے کام میں لائے۔ ان ارشادِ خداوندی سے واضح ہے کہ

خوادثِ ارضی و سماوی میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا سدِباب انسان کے بس کی بات نہ ہو۔ آج کل کرونا کو ہی دیکھ لیں، شروع شروع میں انسان اس کے آگے بے بس نظر آتا تھا، لیکن انسان کے ویکسین بنا نے کے بعد ہم کسی محفوظ ہیں۔ ریسرچ بھی جاری ہے۔ جب انسان نے قوانینِ فطرت کا پورا علم حاصل کر لیا اور قدرت کی قوتوں کو مسخر کر لیا تو خوادث ِ ارضی و سماوی پر قابو پانا کچھ بھی مشکل نہیں رہے گا۔

سن 17 ہجری کے اواخر کی بات ہے کہ فلسطین کے شہر عمواس میں طا عون پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے شام سے عراق تک سارے علاقے میں سیلاب کی طرح پھیل گیا۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں مملکت اسلامیہ کی فوجیں یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایک اندازہ کے مطابق قریب پچیس ہزار مسلمان اس کی نزد ہو گئے، ان میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح، معاز بن جبل یزید بن ابی سفیان، عقبہ بن سہیل وغیرہ شامل تھے۔

اسی طاعون میں حضرت ابو عبیدہ کو لکھا کہ مجھے ایک ضروری مشورہ کے لئے آپ کی ضرورت ہے اس لئے مدینہ تشریف لائیے۔ اس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ میں جا نتا ہوں کہ آپ مجھے اس بلا سے محفوظ رہنے کے لئے بلا رہے ہیں۔ لیکن میں اپنے لشکر کا سپہ سا لا ر ہوں۔ اپنے سپاہیوں کو خطرہ میں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کیلئے یہاں سے نکل جانا باعث ِ ننگ سمجھتا ہوں۔ اس لئے آپ مجھے تعمیلِ ارشا د سے معزور رکھئے۔ فاروقِ اعظم اس وبا کو تو نہ روک سکے، بعد میں تباہیوں کا جائزہ لینے کے لئے خود شام کی طرف تشریف لے گئے۔

بوڑھوں، بچوں، عورتوں کو ان کی اقامت گاہوں پر کھانا پہنچایا جاتا تھا، ان کی تعداد قریب پچاس ہزار۔ اسی قحط کہ دوران آپ کے چہرہ کا رنگ سیاھ پڑ گیا۔ حالانکہ (وہ سرخ و سپید تھے) جب آپ کے رفقاء نے آپ کو معمول کی غزا کی طرف پلٹ آنے کے لئے کہا تو آپ نے جو جملہ کہا وہ سنہری حروف میں لکھے جا نے کے قا بل ہے۔"مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کس طرح ہو سکتا ہے جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گزرے جو ان پر گزرتی ہے"۔

حضرت عبدالله بن عمر کا بیان ہے کہ ایک رات سجدے میں پڑے روتے، گڑ گڑاتے اور خدا سے فریاد کرتے کہ "رب العا لمین " اگر یہ مصیبت میری کسی کوتاہی کی وجہ سے ہے تو مجھے معاف کر دے" حوادث تو آتے رہتے ہیں اور آتے رہتے تھے لیکن خوش قسمت ہوتے وہ عوام جنہیں فا رو قِ اعظم جیسا رہنما میسر آ جائے۔

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari