Pakistan Ka Matlab Kya?
پاکستان کا مطلب کیا؟
خان صاحب نے اپنے جلسے میں کہا کہ اللہ مجھے کہے گا کہ تم نے اچھا کیا کہ قوم کو کلمے کا مطلب سمجھا دیا۔ خان صاحب کو کس قسم کی خوش فہمی ہے مجھے سمجھ نہیں آتی، کیا خان صاحب کو خود پتہ ہے کہ کلمہ کا مطلب کیا ہے؟ صرف ایک رٹ کہ ہم آزاد ہیں"غلام نہیں ہیں" اور ہمیں کسی کی غلامی نہیں کرنا، کیا اس سے کلمے کا مطلب پورا ہو جاتا ہے؟ پاکستان سے قبل ایک نعرہ ہر ایک کی زبان پر تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِ لٰہ اِ لا الله۔
یہ ہی پاکستان کے قیام کا مقصود تھا۔ یہ صرف نعرہ نہیں تھا لیکن افسوس اس کو بنانے والوں کو اتنی مہلت نہیں ملی کہ وہ پاکستان کے مطلب کو عملی جامہ پہنا سکتے۔ قائدِاعظم 1936 میں ہندوستان واپس آئے تھے اور اقبال کے خطوں نے ان میں اتنی ذہنی تبدیلی پیدا کر دی تھی اور دین کے مطالعہ سے وہ یہ حقیقت تسلیم کر چکے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو الگ ریاست کی ضرورت ہے اس لئے کہ اسلام ایک دفعہ پھر دنیا کے سامنے جیتی جاگتی شکل میں آ جائے۔
اس مردِ مومن کی قوتِ ارادی نے صرف قریباً گیارہ سالوں میں ہمیں خون کا قطرہ بہائے بغیر آزادی لے دی۔ یہ جو میں کہہ رہی ہوں کہ خون کا قطرہ بہائے بغیر تو بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں"جو خون خرابہ ہوا وہ بعد میں نقل مکانی کے سلسلہ میں ہوا" کیوں کہ پاکستان کے قیام کو تو وہ روک نہ سکے، قیام کے بعد ہمارے ساتھ ناانصافیاں کی گئیں۔
قائدِاعظم جیسے مردِ مومن کے پاس علماء کا ایک گروہ آیا کہ آپ کے جلسے بہت بڑے ہوتے ہیں، آپ وہاں باجماعت نماز پڑھوا لیا کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتے ہیں، اگر میں امامت کرواتا ہوں تو یہ ممکن ہے کہ تمام مسلمان میری امامت میں نماز پڑھ لیں، لیکن میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا اور اگر کسی اور سے کہا جائے تو مختلف فرقے جیسے دیو بندی اور بریلوی وغیرہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز نہیں پڑھیں گے، اس سے انگریزوں اور ہندوؤں کی نظر میں ہماری وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی۔
قائدِاعظم جیسا لیڈر کہہ رہا ہے کہ میں اپنے آپ کو امامت کا اہل نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں قائدِاعظم سے بڑھ کر اُمتِ مسلمہ کی امامت کا کوئی اور اہل نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے اور آج کے دور کے خان صاحب جو ہمیں کلمہ کا مطلب سمجھا رہے ہیں اور ان کے سامنے کسی کی سوال کرنے کی جراّت نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس ہوتی ہے بغیر صحافیوں کے یا اپنی پسند کے چند صحافیوں کے ساتھ۔
قرآن کریم کی بنیادی تعلیم کو دو لفظوں میں نہایت اطمینان کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کا پیغام نوعِ انسانی کے نام یہ ہے۔
لا اِ لٰہ--------اِ لا اللہ۔
اس کلمے کے دو حصے ہیں۔
1)۔ اس حقیقت کا اعتراف کہ دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے سامنے سر جھکایا جائے، جس کی غلامی کی جائے، جسے آقا تسلیم کیا جائے، اپنی حاجات کا قبلہّ مقصود سمجھا جائے، اور کسی اور قانون کو اپنی زندگی کا ضابطہ بنایا جائے۔ پہلے حصے میں نفی کا پہلو ہے کہ کوئی اِلہ نہیں دوسرا حصہ ہے کہ الہ صرف اللہ ہے۔ بات ختم۔ لیکن ہم در در پر جھکنے والے کیا جا نیں کہ
لاّ اِلٰا۔۔ الا اللہ کا مطلب کیا ہے؟