Moroosi Siasat
موروثی سیاست
موروثی سیاست یہ لفظ پچھلے دنوں سیاست میں بہت استعمال ہوا اور اس لفظ کا استعمال اس پارٹی کی طرف سے ہوا جس کو کہتے ہیں"تحریکِ انصاف" یہ بات تھی بھی بالکل ٹھیک!
ہم نے پا کستان حاصل ہی اس لئے کیا تھا کہ اس کو قرآنی مملکت بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ قرآنی مملکت کا یہ نظام اِسی صورت میں قائم رہ سکتا اور حسن و خوبی سے چل سکتا ہے، جب اسی کے عمال (کا رندے) دیانتدار اور قابل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ بار بار اس قسم کی تا کیدی ہدایات جاری کرتے رہتے تھے کہ:
"یاد رکھو! جس شخص کے سپرد امت کا کوئی اقتدار ہو، اور پھر اُس نے قابلیت کے بجائے اپنی یا قرابت کی بناء پر کسی کو مسلمانوں کا حاکم بنا دیا، تو اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں سے غداری کی۔ اس باب میں ان کی احتیاط کا کیا عالم تھا، اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگائیے کہ انہیں ولایتِ کعفہ کے لئے ایک خاص ٹائپ کے کا رکن کی ضرورت تھی جو بسیار کو شش کے باو جود مل نہیں رہا تھا۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں ایک ایسے آدمی کو جانتا ہوں جو ان خوبیوں کا مالک ہے۔ آپ اسے منتخب کرلیں۔ آپ نے پو چھا کہ وہ کون ہے؟
اس نے کہا کہ آپ کا بیٹا، عبد اللہ، یہ سن کر انہوں نے کہا قاتلک اللہ خدا تجھے غارت کرے، تو مجھے یہ کس قسم کا مشورہ دے رہا ہے؟ عبد اللہ ابنِ عمر بے شک ان خوبیوں کے مالک تھے: لیکن حضرت عمرؓ کو اس کا احساس تھا کہ اگر اس کی طرح پڑ گئی تو اس کا انجام کس قدر تباہ کن ہوگا۔ مملکت کے مناصب، اربابِ اقتدار کے عزیز و اقارب میں بٹنے لگ جائیں!
حقیقت یہ ہے کہ جب تحریکِ انصاف موروثی سیاست کے خلاف بولی تو مجھے اچھا لگا۔ لیکن جب اپنی باری آئی تو شاہ محمود قریشی کی بیٹی اور بیٹا ان سب کو ٹکٹ دی گئی، اس کے علاوہ اور بہت سے ارکان ایسے ہیں جن کے بیٹے یا بیٹی کو ٹکٹ دے دی گئی اور سب اُصول دہرے کے دہرے رہ گئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے تو کبھی موروثی سیاست کا لفظ تک استعمال نہیں کیا کیونکہ بھٹو۔ بے نظیر۔ زرداری۔ بلاول
اور مسلم لیگ میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز۔۔ شہباز شریف اور ان کا بیٹا حمزہ شریف۔۔ اور یہ سلسلہ دونوں پارٹیوں میں برابر آگے بڑھتا جا رہا ہے۔
اصل دل دہلا دینے والی حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں اس لئے ہم اتنی بڑی ذمہ داری کو نہ صرف قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں بلکے اس کے لئیے باقاعدہ جدوجہد بھی ہوتی ہے۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ حکو مت کی ذمہ داریاں کیا تھیں؟ یہی وہ ذمہ داریاں تھیں جن کی طرف حضرت عمرؓ کی توجہ اس بڑ ھیا نے دلا ئی تھی جب شام کے سفر میں آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا اور حسبِ معمول گشت لگانی شروع کی اور دیکھا کہ ایک بو سیدہ سے خیمہ میں ایک بڑ ھیا ہے، اس سے جا کر پو چھا کہ اس کا کیا حال ہے اور کسی قسم کی کوئی شکایت تو نہیں، اس نے کہا کہ میں تمھیں اپنی شکایت کیا بتاوں جب کہ اس شخص نے جس کی یہ ذمہ داری ہے، آج تک کبھی پوچھا تک نہیں، آپ نے پو چھا کہ وہ کون ہے جس کی یہ ذمہ داری ہے؟ اس نے کہا کہ وہ جو امیر المو منین بننے کا مدعی ہے! آپ نے کہا کہ تم نے اپنی تکلیف کی خبر اس تک پہنچائی تھی، اس نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں اس تک خبر پہنچاوں۔ یہ اس کا کام ہے کہ رعایا کے ہر فرد کی خبر گیری کرے، اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا، تو اسے اس ذمہ داری کو کسی ایسے شخص کے سپرد کر دینا چاہیے جو اس کا اہل ہو۔
حضرت عمرؓ نے اس واقعہ کو عمر بھر یاد رکھا وہ اکثر اسے دہرایا کرتے تھے اور نم آلود آنکھوں سے کہا کرتے تھے کہ عمرؓ کو اس بڑھیا نے بتایا کہ خلافت کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
حضرت عمرؓ نے زمین سے تنکا اُٹھایا اور کہا کہ کاش میں ایک تنکا ہوتا جس سے کسی قسم کی باز پرس نہ ہوتی!
کیا یہ احساس آج تک ہمارے حکمران طبقہ میں سے کسے تھا یا ہوا؟ سوائے لیاقت علی خان کے! جن کے اکاؤنٹ میں ان کی وفات کے وقت ان کی تدفین کے لئے بھی رقم مو جود نہ تھی!