Khudi Teri Musalman Kyun Nahi Hai?
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے؟
انسان جو کچھ اپنی زندگی میں کرتا ہے، اس کا نتیجہ اس کو بھگتنا پڑتا ہے، کبھی جلدی کبھی دیر سے۔ آخرت میں تو سب ہی کو بھگتنا ہے لیکن شاید ہم نے اس نتیجہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، اس لئے آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے ہر عمل کا نتیجہ بھگتنا ہے۔ سورہ انفال میں ہے کہ
"یہ سب تمھارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جو تم کر چکے ہو۔ خدا اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا"۔
قرآن کا دعویٰ ہے کہ ظالم کی کھیتی پنپ نہیں سکتی۔ ظلم کا مطلب ہوتا کہ جس جگہ پر جس چیز کو ہونا چاہئے وہ اس جگہ پر نہ ہو۔ یعنی کوئی چیز اپنے ٹھیک مقام پر نہ ہو، مثال کے طور پر زمین کا مالک خدا تعالیٰ ہے۔ کوئی انسان اس کا مالک نہیں۔ ہم زمین پر لکیریں کھینچ کر اس کو اپنی ملکیت بنا لیتے ہیں جو کہ قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔ جو کہ ظلم ہے، یہ بہت بڑی بات ہے، جس کو نہ تو سرمایہ دار طبقہ اور مذہبی پیشوائیت تسلیم کرے گئی، لیکن میں اس وقت ایک بہت ہی سادہ سی مثال دیتی ہوں۔
کچھ عرصہ پہلے اعظم سواتی کی زمین پر کسی غریب کی بھینس چرنے آ گئی، اور اس خاندان کے ساتھ جو انسانیت سوز سلوک کیا گیا وہ کیا تھا؟ وہ ظلم تھا۔ اب قرآن کا دعویٰ ہے کہ ظالم کی کھیتی پنپ نہیں سکتی، لیکن کیا ہوا، اعظم سواتی کی فیملی بڑی عیش سے پنپتی رہی اور غریب کی فیملی پستی میں چلی گئی۔ لیکن بالآخر وقت آ ہی گیا کہ اعظم سواتی بھی گرفتار ہوگیا۔ اس کا انجام اگر ابھی بھی نہیں ہوتا لیکن ہوگا ضرور، کیونکہ قدرت کا دعویٰ ہے کہ ظالم کی کھیتی پنپ نہیں سکتی، حق ہے اور حق ہو کر رہتا ہے۔
اب رانا ثناءاللہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، صرف سیاسی انتقام کے لئے، میں اس وقت ان کا ذکر کسی سیاسی وابستگی کی وجہ سے قطعاََ نہیں کر رہی، ان کا ذکر صرف اس لئے کر رہی ہوں کہ خود فواد چودھری نے اس چیز کا اعتراف کیا کہ ان پر غلط مقدمہ درج کیا گیا تھا، اس سے پہلے شہریار آفریدی نے کہا کہ "جان اللہ کو دینی ہے" جب رانا ثناءاللہ پر ہیروئین کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا، جیل میں رانا ثناءاللہ کے ساتھ کیا کیا ظلم روا نہیں رکھا گیا، بالآخر وہ اس مقدمہ سے بری ہو گئے۔
ہم بچپن سے اپنی نانی اماں (جن کو ہم بڑی امی بھی کہا کرتے تھے) سے سنتے آئے ہیں کہ ہمارے کندھوں پر دو فرشتے ہوتے ہیں ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف ہوتا ہے۔ وہ فرشتے ہمارا ہر عمل لکھ رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت تو شاید یہ بات بچوں کو سمجھانے کے لئے بہت آسان تھی اور بہترین طریقہ تھا بچوں کے اندر اس اخلاقی سبق کو داخل کرنے کا کہ ہر انسان اپنے ہر عمل کا ذمہ دار ہے، چاہے وہ عمل رائی کے دانے کے برابر بھی کیوں نہ ہو۔
حقیقتاََ قرآن میں جن فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ کراماََ کاتبین کے نام سے مشہور ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ہر عمل کا اثر اس کی ذات پر پڑتا ہے، اور وہ جو عمل کر رہا ہوتا ہے اِسی طرح اس کی ذات مرتب ہو رہی ہوتی ہے۔ اسی کو اقبال نے "خودی" یا "انسانی نفس" یا "انسانی ذات" سے تعبیر کیا ہے۔ سب ایک ہی ہیں۔
اب حال ہی میں خان صاحب کی بیٹی ٹیریان کا قصہ، پھر دوبارہ جاگ اُٹھا ہے۔ وہ بچی اب 30 برس کے لگ بھگ ہے۔ جس کو خان صاحب نے امریکہ کی عدالت میں تو اپنی بیٹی تسلیم کیا ہے لیکن وہ نہ تو اس کو اپنا نام دینے پر تیار ہیں اور نہ پاکستان میں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیران میری بیٹی ہے۔
یہ وہ جرم یا غلطی کہہ لیں جو 30 برس کے لگ بھگ اس کی ذات سے جڑی ہوئی ہے۔ بالآخر یہ غلطی اب بےنقاب ہو رہی ہے، اسی طرح روزِ قیامت ہمارے سب اعمال دنیا کے سامنے ظاہر ہونگے، اور ہر ایک عمل جس کو ہم نے دنیا سے چھپا کر اپنے آپ کو بہت عظیم اور متقی اور پرہیزگار ثابت کیا ہوگا۔ بعض اوقات دنیا میں بھی میدانِ حشر برپا ہو جاتا ہے۔ خان صاحب کا "میدانِ حشر" قریب آ رہا ہے۔
کاش طاقت اور جوانی کے لمحوں میں ہم اپنی خودی، اپنی ذات، اپنے نفس کو لگام دے سکتے۔ اقبال نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا۔
تیرے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے
ایک اور جگہ کہا کہ
عبث ہے شکوہ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
ارمغانِ حجاز۔