Kehte Kyun Ho Jo Karte Nahi Ho?
کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟
آج کل عمران خان تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے خا صے غصے میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی زبان کبھی ان کو آسمان کی بلندیوں پر لے گئی تھی اور یہی زبان ان کو کہاں لے جائے گئی یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ لیکن تا ریخ بتاتی ہے کہ وقت بہت برا سکھاتا ہے۔ دو تین دن پہلے جلسے میں جو زبان استعمال کی گئی اس کے الفاظ بھی شاید یاد رکھے جائیں گئے۔ ابھی وزیر اعظم صاحب فرما رہے تھے کہ اپو زیشن مائنڑ گیم کھیل رہی ہے، وہ تو خود مائنڑ گیم کھیلنے میں ماسٹر ہیں۔ یہی زبان ان سے اس قدر سچ نکلوا سکتی ہے واقعی!
مجھے عمران کی شروع کی تقریر کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو شاید میں پوری زندگی کبھی نہ بھول سکوں۔ انھوں نے جب تقریر کا آغاز "ایاک نعبد و ایاک نستعین" کہہ کر کیا تھا اور ان الفاظ پر یقین کر کے ہی میں نے ان کو اپنی زندگی کا پہلا ووٹ دیا۔ انسان کی خصوصیت قرآن میں بتائی گئی ہے کہ علمہ البیان، ا نسان کو قوت گویائی دی گئی جو کائنات میں کسی اور کو نہیں دی گئی۔ یہی خصوصیت اس کو خیوان سے ممتاز کرتی ہے۔ اگر اس قوت کا استعمال ٹھیک طور پر کیا جائے تو اس کے نتائج تعمیری نکلتے ہیں۔ میں سورہ الصف پڑھتے ہوئے اس کی آیت نمبر دو پر رک گئی جس میں الله نے شا ید ہمارے دور کے انسانوں کے لئے ہی کہا ہے۔
"یا یھا الزین امنو لم تقولون ما لا تعفعلون"
"اے جماعت مومنین! ایسا کبھی نہ کرو، زبان سے بڑے بڑے دعوے کرتے ر ہو اور انہیں عملاً پورا کر کے نہ دکھاوؑ"۔
"کبر مقتاؑ عند الله اٰن تقُولو عنِداللہ اٰن"
"تّقُولو مُاہُ تّفعّلُو نّ"
قانونِ خداوندی کی رو سے یہ بات بڑی قابلِ گرفت ہے کہ ایسی باتیں کی جائیں جنہیں کر کے نہ دکھایا جائے۔ قرآن کائنات کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کائنات پر غور و فکر کرو کہ پوری کائنات خا موش ہے لیکن مصروف ِعمل ہے۔ باتیں نہیں کر رہی، تم صرف باتیں ہی کئے جا تے ہو اورکام کچھ نہیں کرتے۔
"لم تقوُلونّ ماّ لاْ تععفّلُون "
"کہتے کیوں ہو جو تم نہیں کرتے"؟
مائنڑ گیم کے ماسٹر ہونے والے وزیرِ اعظم صا حب سے سوال کرتی ہوں، وہی سوال جو قرآن اپنے بندوں سے کر رہا ہے کہ "وہ کہتے کیوں ہوجو کرتے نہیں ہو"؟ اقبال کہتے ہیں کہ جو قو میں کام کر رہی ہیں ان کو مزاقِ سخن نہیں ہے۔ ان کے بڑے خوبصورت شعر ہیں کائنات کے بارے میں کہ
خاموش ہے چا ندنی قمر کی، شاخیں ہیں خاموش ہر شجر کی
تا روں کا حا مو ش کارواں ہے، یہ کافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہیں کوہ و دشت ودریا، فطرت ہے مر اقبہ میں گویا
جو کام میں مصروف ہوتا ہے وہ باتیں نہیں کرتا۔ یہ کائنات اس حقیقت پر شاہد ہے جو مصروفِ عمل ہوتا وہ باتیں نہیں کرتا۔
جرمن کے ما ہر نفسیات erich frommنے to have or to beکی تھیوری پیش کی تھی یعنی جیسا آپ کا عمل ہو گا ویسی ہی آپ کی تقدیر ہو گئی، یعنی جس طرح کا عمل ویسا نتیجہ۔ وزیرِ اعظم مائنڑ گیم میں ما سٹر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ جو عملاؓ کچھ بھی نہ کر سکے۔ انھو ں نے جو عمل اب تک کیے ہیں ان کے نتائج بھی ویسے ہی نکلیں گئے، عوام پوچھ رہے ہیں۔
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی!
دکھ کی دوا کوئی نہیں ہے صرف نسخے ہی ہیں۔
قرآن کے الفاظ میں عوام بھی یہی سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
"لم تقو لونّ ما لا تعفّلون"
"کہتے کیوں ہو جو کر کے نہیں دکھاتے، کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو"؟