Jinke Rutbe Hain Siwa, Unke Siwa Mushkil Hai
جن کے رتبے ہیں سو ا، ان کی سوا مشکل ہے
سچی اور حق بات اپنی جگہ پر اٹل ہوتی ہے۔ آپ چاہے کسی شخص کو پسند کریں یا نا پسند کرتے ہوں، لیکن جو حق بات کہنے والا ہے، وہی درست ہوتا ہے، چایے حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں، اب شہباز شریف اچھے administrator کے طور پر ہمیشہ سے پسند تھے۔ ان پر لگے ہوئے الزامات کو ثابت نہ کیا جا سکا اور پاکستان سے باہر بھی وہ سر خرو ہو گئے۔
یہ سب اپنی جگہ پر درست، لیکن اگر پسند کئے جانے والوں جس سے غلطی ہو جائے، تو اس لمحہ آپ کو نظر بچا کر گزر جانا زیب نہیں دیتا، میں بات کر رہی ہوں سلمان شہباز کی، جب وہ پا کستان آئے اور انھوں نے شہباز شریف سے ملتے ہوئے ان کے پاوں چھوئے، اب اس عمل کی ن لیگ والے صفائیاں یہ کہہ کر دے رہے ہیں کہ انھوں نے احترام سے ایسا کیا تھا۔
اسلام میں والدین کے احترام کی تاکید کی گئی ہے، احترام کی تاکید کرنا اور پاوّں چھونے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ احترام کرنے کا ضرور کہا گیا ہے، لیکن ہم سنتِ ابراہیمی کے ماننے والے ہیں۔ ہمارے لئے پیروی ہم صرف اپنے دین کی کریں گئے، جو کہ ہمارے لئے اٹل ہیں۔ جس میں کسی قسم کا ردو و بدل نہیں ہو سکتا جو خدا کی کتاب میں محفوظ ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد جو بت پرست تھے، ان سے اختلاف کرتے ہوئے ہزاروں بتوں کی پرستش سے انکار کر دیا اور ان کے بیٹے جب ابراہیمؑ حق پر تھے تو اپنے والد کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، والدین قابلِ احترام ضرور ہیں، لیکن اگر کسی مقام پر ان سے غلط فیصلے ہو جائیں تو مسلمان اس کی پیروی نہیں کر سکتے نہ ان کو اپنے لئے مثال پیش کر سکتے ہیں کہ ہمارے والدین فلاں کام کرتے تھے۔
وہ درست تھا، اس لئے ہم بھی کریں گئے، میں اس وقت یہ نہیں کہہ رہی کہ شہباز شریف نے کوئی غلط یا ٹھیک کام کیا ہے، میرا مقصد اس وقت صرف یہ کہنا ہے کہ اگر عمران خان کا دربار میں جا کر سجدہ کرنا غلط عمل تھا جس کو یو تھیے defend کرتے رہے، غلط کام غلط ہی ہوتا ہے، اس کو defend کرنا خود ایک غلطی ہے، بالکل اِسی طرح سلمان شہباز کے نزدیک اپنے والد کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں۔
ان کے پاوّں چھونا بہر حال غلط عمل ہے، سلمان شہباز خوشی سے سر شار تھے کہ وہ بالآخر وطن واپس آ گئے لیکن اس طرح جزبات میں ڈوب کر پاوّں چھونے کو میں کسی طرح بھی defend نہیں کر سکتی، کیوں کہ میں بہر حال کھلی آنکھیں اور کھلا دماغ رکھتی ہوں۔
حضرت عمر اس واقعہ کا اپنے دورِ خلافت میں ذکر کرتے تھے کہ ایک وہ وقت تھا، جب وہ نمدے کا کرتا پہن کر بھیڑیں چرایا کرتے تھے اور باپ بہت سخت تھا اور پیٹتا بھی تھا، لیکن اب یہ وقت ہے کہ عمر اور خدا کے بیچ کوئی قوت حائل نہیں۔
اصل آزادی جو ہمارے دین نے ہمیں دی ہے وہ یہ ہی ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کوئی قوت حائل نہیں ہم ہندوؤں کی فلمیں، ان کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن جب کرکٹ میچ ہندوستان کے ساتھ ہوتا ہے، اُس وقت میچ میں مسلم اور ہندو کی جنگ کا سامان ہوتا ہے اور جزبات آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔
بالکل اِسی طرح شہباز سلمان کے سلسلے میں ہوا کہ لوگوں کو شہباز شریف کے پاوں کو چھونا ہندوانہ رسم لگی گمان تو واقعی یہ ہو رہا تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی شخصیت عام سے خواص میں بدل جاتی ہے تو اس کو ہر قدم پھونک پھونک کر اُ ٹھانا پڑتا ہے۔ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔